مغرب، جمہوریت اور مسلم دنیا

1383

یوکرین کے صدر ولادی میر زلنسکی نے اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ وہ یاتو یوکرین کے سلسلے میں کچھ کرے بصورت دیگر اپنا وجود تحلیل کرلے۔ زلنسکی نے دوسرا مطالبہ یہ کیا کہ روس کو سلامتی کونسل سے نکالا جائے کیونکہ وہ سلامتی کونسل میں اپنے خلاف کسی بھی قرار داد کو ویٹو کردے گا۔ زلنسکی نے کہا کہ روس کو سلامتی کونسل سے نکالنا اس لیے ضروری ہے تاکہ وہ اپنے خلاف کسی فیصلے کی راہ مسدود نہ کرسکے۔ زلنسکی نے کہا کہ اگر روس کو سلامتی کونسل سے نہیں نکالا جاسکتا تو پھر اقوام متحدہ ہی کو ختم کردینا چاہیے۔ زلنسکی نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا آپ اقوام متحدہ کو ختم کرنے پر تیار ہیں۔ زلنسکی نے اپنے خطاب کے دوران 90 سکینڈ کی ایک ویڈیو کلپ بھی دکھائی جس میں روسی جارحیت سے ہلاک ہونے والوں کو دکھایا گیا ہے۔ زلنسکی نے جذباتی انداز میں کہا کہ ہمارے لوگوں کو گھروں میں گھس کر مارا گیا۔ ٹینکوں کے نیچے کچلا گیا۔ ان کے گلے کاٹے گئے۔
مغربی ذرائع ابلاغ نے یوکرین کی جنگ کو امریکا اور یورپ کی جنگ بنادیا ہے۔ چنانچہ یوکرین کے صدر ولادی میر زلنسکی پوری مغربی دنیا کے ’’جنگی ہیرو‘‘ ہیں اور ان کی باتیں مغرب میں بڑی توجہ سے سنی جارہی ہیں۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ نہیں۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ زلنسکی نے اقوام متحدہ کے خلاف کسی مسلمان کی طرح گفتگو کی ہے۔ یوکرین کی جنگ کو جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے مگر یوکرین کے صدر اقوام متحدہ کے کردار کے خلاف طیش میں آگئے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ یا تو سلامتی کونسل سے روس کو نکالا جائے یا تو اقوام متحدہ ہی ختم کردو۔ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں گئے ہوئے 74 سال ہوگئے۔ یوکرین میں اب تک جنگ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد آٹھ دس ہزار سے زیادہ نہیں مگر مغرب اور اس کے زیر اثر زلنسکی نے طوفان اٹھایا ہوا ہے۔ کشمیر میں گزشتہ 30 سال کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری مسلمان شہید ہوئے ہیں۔ 12 ہزار کشمیری خواتین عصمتوں سے محروم ہوئی ہیں۔ ہزاروں افراد مدتوں سے لاپتا ہیں اور ہزاروں افراد جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ اس کے باوجود اقوام متحدہ کشمیر کے سلسلے میں کچھ بھی کرنے پر تیار نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کشمیر کی پوری صورت حال مغربی ذرائع ابلاغ میں رپورٹ تک نہیں ہوتی۔ یوکرین کے صدر کو شکایت ہے کہ یوکرین کی جنگ کے خلاف سلامتی کونسل میں قرار داد آئی تو روس نے اسے ویٹو کردیا۔ اس بنیاد پر یوکرین کے صدر کہہ رہے ہیں کہ یا تو روس کو سلامتی کونسل سے نکالو یا اقوام متحدہ ہی ختم کردو۔ مگر گزشتہ 50 سال کے امریکا نے سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف ایک دو قرار دادوں کو نہیں 70 سے زیادہ قرار دادوں کو ویٹو کیا ہے مگر آج تک مغرب کے کسی رہنما نے یہ نہیں کہا کہ یا تو سلامتی کونسل سے امریکا کو نکالو یا پھر اقوام متحدہ ہی ختم کردو۔ مسئلہ کشمیر کی طرح مسئلہ فلسطین بھی 70 سال سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر اقوام متحدہ اور خاص طور پر اس کی سلامتی کونسل اگر مسلم دنیا کی ایجاد ہوتی تو اہل مغرب کہتے کہ مسلمان ہیں ہی ظالم امت۔ انہیں انصاف چھو کر نہیں گزرا۔ ان کے دل پر رحم نے کبھی دستک نہیں دی۔ لیکن مغرب گزشتہ 75 سال سے اقوام متحدہ کے ظالمانہ غیر منصفانہ اور غیر جمہوری نظام کو پوری دنیا بالخصوص کمزور قوموں پر مسلط کیے ہوئے ہے اور اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔
مغرب کہتا ہے کہ وہ جمہوریت کا علمبردار ہے۔ جمہوریت مغرب کی ایجاد ہے اور وہ اس کو اپنی بہت بڑی قدر قرار دیتا ہے۔ لیکن مغرب نے اقوام متحدہ کا ڈھانچہ کھڑا کیا تو اقوام متحدہ کے دو حصے بنائے گئے۔ ایک حصہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ہے۔ اقوام متحدہ کا ہر رکن جنرل اسمبلی کا رکن ہے۔ لیکن جنرل اسمبلی صرف بحث و مباحثے کا مقام ہے۔ اس مقام پر صرف تقریری مقابلے ہوتے ہیں۔ قوموں کی تقدیر کے فیصلے سلامتی کونسل میں ہوتے ہیں اور سلامتی کونسل کے پانچ بڑوں کے پاس ویٹو پاور ہے۔ ویٹو پاور کا تصور جمہوریت کی نفی ہے۔ اس لیے کہ ویٹو کا ظہور صرف طاقت سے ہوتا ہے۔ امریکا طاقت ور ہے اس کے پاس ویٹو ہے۔ برطانیہ اور فرانس طاقت ور ہیں۔ ان کے پاس ویٹو پاور ہے۔ چین اور روس طاقت ور ہیں ان کے پاس ویٹو پاور ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ ویٹو کے حامل ملکوں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ شور برپا ہے کہ جرمنی اور بھارت دونوں کو سلامتی کونسل میں ویٹو پاور حاصل ہونا چاہیے۔ دیکھا جائے تو اس تجویز کی بنیاد بھی طاقت ہے۔ جرمنی یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے اور وہ امریکا کا اتحادی ہے۔ بھارت دنیا کی ابھرتی ہوئی بڑی معاشی طاقت ہے اور وہ بھی مغرب کا اتحادی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغربی دنیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک ’’مغربی کلب‘‘ کے طور پر دیکھتی ہے۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ انسانیت ہے؟ کیا یہ توازن ہے؟
مغربی دنیا صرف اقوام متحدہ ہی میں جمہوریت پر نہیں تھوک رہی بلکہ وہ مسلم دنیا میں بھی جمہوریت کو رسوا کررہی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مغرب کہا کرتا تھا کہ اسلام دنیا کو جو کچھ دے سکتا تھا دے چکا اب اس کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ اسلام اپنی باطنی قوت صرف کرچکا اور اب وہ دنیا میں انقلاب برپا کرنے والی طاقت نہیں ہے۔ مگر 20 ویں صدی کے وسط میں اسلام نے برصغیر میں پاکستان کے نام سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت خلق کرکے دکھا دی۔ اسلام کی قوت ہی نے ایران میں انقلاب برپا کیا۔ چنانچہ اس کے بعد مغربی دنیا نے یہ کہنا شروع کیا کہ اسلامی قوتیں ڈنڈے کے زور سے تو اقتدار پر قابض ہوسکتی ہیں مگر ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں نہیں آسکتیں۔ لیکن الجزائر میں اسلامی فرنٹ نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی۔ انتخابات کا دوسرا مرحلہ آتا تو اسلامی فرنٹ اس سے بھی بڑی جمہوری فتح حاصل کرتا مگر مغرب نے اس کی نوبت ہی نہیں آنے دی۔ مغرب نے الجزائر کی فوج کو ایک درندے کی طرح اسلامی فرنٹ پر چھوڑ دیا۔ ملک میں خانہ جنگی برپا ہوگئی جو دس دس سال میں دس لاکھ لوگوں کو نگل گئی اور اسلام کا جمہوری راستہ بند ہوگیا۔ ترکی میں نجم الدین اربکان ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ چونکہ وہ بھی ’’اسلامسٹ‘‘ تھے اس لیے ان کی حکومت کو ایک سال سے زیادہ نہ چلنے دیا گیا۔ حماس اپنی اساس میں ایک جہادی تنظیم تھی مگر حماس نے اپنی تاریخ کے ایک مرحلے پر محسوس کیا کہ اسے ایک سیاسی اور جمہوری قوت کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ چنانچہ اس نے خود کو ایک سیاسی جماعت میں ڈھالا اور انتخابات میں حصہ لے کر اکثریت حاصل کی۔ لیکن امریکا اور یورپ نے حماس کی جمہوری حکومت کو تسلیم ہی نہ کیا۔ مصر میں اخوان جمہوری انتخابات میں ایک بڑی قوت بن کر ابھرے اور مرسی صاحب ملک کے صدر بن گئے مگر مغرب نے یہاں بھی فوج کو ایک درندے کی طرح صدر مرسی اور اخوان پر چھوڑ دیا۔ حد تو یہ ہے کہ امریکا اور یورپ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے اخوان کو دہشت گرد جماعت قرار دلوا دیا۔ ترکی کے رجب طیب اردوان ان معنوں میں اسلامسٹ نہیں جن معنوں میں حماس، اخوان یا جماعت اسلامی کو اسلامسٹ سمجھا جاتا ہے۔ رجب طیب اردوان اسرائیل کو تسلیم کیے ہوئے ہیں۔ وہ گزشتہ بارہ سال سے یورپی یونین کا حصہ بننے کے لیے کوشاں ہیں۔ ترکی ناٹو کا رکن ہے۔ ترکی کا آئین سیکولر ہے اور ترکی میں شراب اور جسم فروشی کا کاروبار عام ہے اس کے باوجود بھی مغرب رجب طیب اردوان کو ’’اسلامسٹ‘‘ کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ طیب اردوان ’’پوشیدہ اسلامسٹ‘‘ ہیں اور ان کا اسلام ’’برق رفتار‘‘ نہیں ’’رینگتا ہوا‘‘ اسلام ہے۔ چنانچہ امریکا نے ان کے خلاف فوجی بغاوت برپا کرادی۔ جس رات طیب اردوان کے خلاف بغاوت ہوئی ہم اپنے کمرے میں آرام کررہے تھے۔ ہماری بڑی بیٹی نے جو ٹی وی دیکھ رہی تھی ہمیں اچانک آکر بنایا کہ ترکی میں فوجی بغاوت ہوگئی ہے۔ ہم ٹی وی کے سامنے پہنچے تو پاکستانی چینل لگا ہوا تھا۔
ہم نے اپنی بیٹی سے کہا یہ وقت پاکستانی چینل دیکھنے کا نہیں ہے فوراً سی این این لگائو۔ ہمارے اندیشے کے عین مطابق سی این این پر امریکی سی آئی اے کا ایک سابق اہلکار اردوان کے خلاف کتے کی طرح بھونک رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا اردوان آمر اور جابر ہے۔ وہ خود کو ’’سلطان‘‘ سمجھتا ہے۔ وہ چھپا ہوا اسلامسٹ ہے۔ اس کے خلاف فوج نے بغاوت کرکے بہت اچھا کیا۔ اسی رات خدا واقعتاً اردوان پر مہربان تھا۔ اردوان نے ترکی کے لوگوں سے فوجی بغاوت کی مزاحمت کی اپیل کی اور لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔ انہوں نے گن شپ ہیلی کاپٹرز کا سامنا کیا اور فوجی بغاوت کو ناکام بنادیا۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو اس بات میں کسی کو کوئی شبہ ہی نہیں ہونا چاہیے کہ امریکا اور یورپ واقعتاً عمران خان کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے ایک اہم سیاسی رہنما نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ آخر عمران خان نے ایسا کیا کردیا ہے کہ امریکا ان کا دشمن ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں اکبر الٰہ آبادی نے ایک عجیب شعر کہا تھا۔ انہوں نے فرمایا تھا۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
بلاشبہ عمران خان نے اسلام کے غلبے کے لیے کچھ نہیں کیا مگر مغرب کو یہ بات بھی گوارا نہیں کہ عمران خان ریاست مدینہ کے تصور پر اصرار کیوں کرتے ہیں۔ وہ عالمی سطح پر اسلامو فوبیا کے خلاف کلام کیوں کرتے ہیں؟ وہ توہین رسالتؐ کے حوالے سے جذباتی کیوں ہیں؟ وہ نوجوانوں کو فکر اقبال سے وابستہ ہونے پر کیوں اکساتے ہیں؟ بلاشبہ یہ سب معمولی باتیں ہیں اور عمران اگر مقبول عوام نہ ہوتے تو ان باتوں کی کوئی اہمیت نہ ہوتی لیکن عمران مقبول عوام ہیں اور ان کے ذریعے اسلام عام گفتگو کا موضوع بنتا ہے۔ مغرب کو یہ بھی گوارا نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلم دنیا میں مغرب کا مسئلہ جمہوریت نہیں۔ سیکولر جمہوریت ہے۔ لبرل جمہوریت ہے، امریکا کو میاں نواز شریف سے کوئی خطرہ نہیں اس لیے کہ وہ اسلام کا نام تک نہیں لیتے۔ امریکا کو بلاول سے کوئی خطرہ نہیں۔ ان کے لیے اسلام سے وابستگی کا کوئی مفہوم ہی نہیں۔ مغرب کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اسے مسلم دنیا میں لبرل اور سیکولر ڈیموکریٹس درکار ہیں بلکہ اسے ایسے رہنما درکار ہیں جو مغرب کے آلہ کار کے طور پر بروئے کار آسکیں۔ اگر کوئی شخص طیب اردوان کی طرح قوم پرست بھی ہو تو وہ مغرب کے لیے قابل قبول نہیں۔
مغرب فوجی آمریت کے خلاف ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے ہمیشہ پاکستان میں فوجی آمروں کی پشت پناہی کی ہے۔ جنرل ایوب امریکی آشیرباد سے اقتدار میں آئے تھے۔ جنرل یحییٰ امریکا کو بہت عزیز تھے۔ حمودالرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ جنرل یحییٰ سقوط ڈھاکا کے ذمے دار ہیں ان کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے مگر امریکا کے دبائو پر جنرل یحییٰ کا کورٹ مارشل نہ ہوا۔ جنرل ضیا الحق امریکا کی مرضی کے بغیر اقتدار پر قابض نہیں ہوسکتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے اس حد تک امریکا پرستی کی کہ مگربی ذرائع ابلاغ صدر بش کی رعایت سے انہیں ’’بشرف‘‘ کہنے لگے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجو ہے کہ امریکا نے مشرق وسطیٰ کے بادشاہوں کی سرپرستی کی ہے۔ اس لیے کہ امریکا کو معلوم ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت آئی تو ہر جگہ اسلام پسند آجائیں گے۔