کچھ کچھ خوف باقی ہے

431

وفاق میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو بہت سے سوالات سامنے آگئے، سب سے بڑا اور اہم سوال یہ تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک کی پشت پر کون ہے؟ حکومت کا خیال تھا کوئی تو ہے اسی لیے تو عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی ہے، مگر آہستہ آہستہ پیاز کے پردوں کی طرح یہ بات کھلتی چلی گئی کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے یہ سیاسی کھیل کا حصہ ہے اسے کہیں سے آکسیجن نہیں مل رہی، اس کے باوجود یہ بات دل میں کھٹک رہی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے ویسا نہ ہوجائے، سیاست میں مداخلت آج سے نہیں برسوں سے ہورہی ہے اسی لیے تو سوالات اٹھے، یقین دلایا گیا کہ کوئی کسی کی پشت پر نہیں ہے اس کے باوجود ذہن اور دل بات ماننے کو تیار نہیں، یہ خوف اُتر بھی رہا ہے اور کچھ کچھ باقی بھی ہے، ماضی میں ایسا کئی بار سننے کو ملا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے کسی بدنام زمانہ ڈاکو کی لاش کے پاس پولیس والے جاتے ہوئے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں یہ زندہ ہی نہ ہو، لیکن… حالات اب بدل گئے ہیں ان دنوں بھی ملک میں سیاسی موسم گرم ہے، یہ کہا جائے کہ سیاسی موسم انگڑائیاں لے رہا ہے تو بے جا نہ ہوگا، سیاسی بیٹھکیں جم رہی ہیں، گلے شکوے بھی چل رہے ہیں، ماضی بھلا کر مستقبل کی جانب نظریں لگانے کی بات بھی ہورہی ہے، سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کا موسم بھی بن رہا ہے، طرح طرح کی اطلاعات ہیں، حکومت کے اتحادی اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہورہے ہیں حکومت اپنے اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے کی تگ و دو کر رہی ہے یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر ہورہا ہے، اور کمال کی بات یہ ہے کہ سب ہی چاہتے ہیں کہ جمہوریت مضبوط ہو، یہ جمہوریت بھی کیا چیز ہے، یہ اس وقت ہی مضبوط ہوتی جب سیاسی جماعتوں کو ان کے اپنے مفاد کے مطابق سانس لینے کا موقع ملتا ہے، ورنہ جمہوریت خطرے میں رہتی ہے۔
آج کی اتحادی جماعتیں کبھی اپوزیشن کے لیے اور کبھی حکومت کے لیے ریسکیو 1122 بن رہی ہیں، رات کو ملتے ہیں تو مبارک باد دیتے ہیں، صبح پتا چلتا ہے کہ رات کو مبارک باد دینے والے کسی دوسرے کیمپ میں کھڑے ہوئے ہیں، یہ بالکل ایسا ہی جیسے کوئی اداکار کسی ڈرامے میں باپ کا اور کسی ڈرامے میں بھائی کا اور کسی ڈرامے میں بیٹے کا رول کر رہا ہوتا ہے، یہ اس لیے ہے کہ سبھی جماعتیں اپنا مستقبل دیکھ رہی ہیں، سیاسی شخصیات بھی اپنا مستقبل دیکھ رہی ہیں کہ انہیں آئندہ کس جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا ہے۔ پنجاب ہو یا وفاق، وزراء کی اکثریت خاموش ہے وہ حکومت کا کہیں دفاع کرتے نظر نہیں آتے چند وزراء ہیں جو دفاع کر رہے ہیں، سیاست بے رحمی، خود غرضی اور مفاد پرستی کا کھیل ہے اس میں دوستی اور خونی رشتوں کا بھی لحاظ نہیں رکھا جاتا باپ، بیٹا اور بھائی ایک دوسرے کے مقابلے پر کھڑا ہونے میں ہار محسوس نہیں کرتے کہ طاقت اور اقتدار کا نشہ آنکھوں پر پٹی باندھ دیتا ہے۔ عمران خان خوش قسمت سیاست دان ہیں جو میدان سیاست میں بیس سال سے جدوجہد کر رہے تھے مگر عوام کو متاثر کرنے میں کامیابی حاصل نہ کر سکے تھے جونہی میثاق جمہوریت ہوا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا راستہ روکنے کا فیصلہ بھی ہوگیا اور یہ میثاق عمران خان کے لیے نیک فال ثابت ہوا جس کے بعد وہ سیاست میں تیسری بڑی قوت بن کر سامنے آئے میموگیٹ، ڈان لیکس جیسے تنازعات نے دونوں بڑی پارٹیوں اینٹ سے اینٹ بجا دی، وزیراعظم بھی آج کل کچھ تنازعات کا شکار دکھائی دیتے ہیں حکومتی امور اور اہم تعیناتیوں اور تقرریوں میں علم الاعداد کو لانا ان کے لیے مشکل بن گیا اور ان کی کشتی بھنور میں پھنس چکی ہے جو غلطیاں نواز اور زرداری نے کیں،
خان صاحب کو بحرحال ان سے بچنا چاہیے تھا مگر ان کو اپنے نادان دوستوں کے مفت مشوے لے ڈوبے ہیں… مفت مشورے صرف عمران خان کے لیے خطرناک نہیں ہیں یہ سب سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے لیے بھی یہی پیغام ہے کہ وہ مفت مشوروں والے نادان دوستوں سے بچ کر رہیں… انہی کے سبب ہر سیاسی جماعت ذاتی جماعت بن جاتی ہے۔