ـ18 ویں ترمیم… نشانہ کیا ہے؟

433

ایک نعرہ لگا کہ گھبرانا نہیں دوسرا لگا کہ گھبرا گئے ہیں۔ آج کل اعتماد اور عدم اعتماد کا ڈراما چل رہا ہے میراثی بھانڈ بیروزگار ہوگئے ہیں۔ یہ ذمے داری بلکہ دھندا معزز لوگوں نے سنبھال لیا ہے۔ اس دھندے میں زبان کبھی زیادہ مچل جاتی ہے مسالہ تیز ہو جاتا ہے۔ اسے ذاتی حملہ کہا جاتا ہے۔ لیکن 125 روزہ دھرنے اور قومی اسمبلی کے سامنے میوزیکل نائٹس کے موقع پر جو کچھ کہا جاتا رہا وہ شائستگی تھی…!! یہ غیر سنجیدگی کہاں سے آگئی۔ یہ جگت باز ارکان اسمبلی اچانک 18 ویں ترمیم کے پیچھے پڑ گئے۔ یہ ترمیم جس طرح کی گئی تھی اس کے بارے میں سب ہی جانتے ہیں لیکن جو کچھ اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے اس کے بارے میں سوال ہے کہ کیا وہ سب درست ہے؟ چوں کہ یہ ترمیم پیپلز پارٹی یعنی آصف زرداری کے دور میں منظور ہوئی تھی تو اس کے بارے میں جو زبان استعمال کی گئی وہ کچھ یوں ہے۔ ایوان صدر میں ہونے والی تقریب میں صدر مملکت آصف زرداری نے کہا کہ اس ترمیم کے ذریعے فوجی آمروں کا راستہ روکا گیا ہے۔
چند ریاستی ادارے آمروں کی جانب سے آئین معطل کرنے کو جائز قرار دیتے تھے۔
امید ہے اب آمریت کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوگئے۔
تقریب سے یوسف رضا گیلانی نے خطاب میں مصالحت (مک مکا) کی پالیسی جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ منظر دیکھا کہ صدر وزیراعظم اپوزیشن سب ایک چھت تلے جمع ہیں۔
اہم بات یہ تھی کہ پہلا موقع ہے کسی صدر نے اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو اور وزیراعظم کو منتقل کیے ہیں۔
لیکن یہ سب باتیں پارلیمانی روایات کا حصہ ہیں۔ اس میں جو کچھ تبدیل کیا گیا ہے وہ اٹھاون 2 بی ہے جس کے ذریعے صدر اسمبلی توڑ سکتا تھا۔ صوبہ سرحد کا نام کے پی کے رکھنا اور منظور کرنا۔ مسلح افواج کے سربراہوں کا تقرر وزیراعظم کا اختیار بنادیا گیا۔
اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہا کہ آئین شکنی کا مجرم آئین کی دفعہ 6 کے تحت غدار تصور ہوگا اور اس کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے گا اسے سنگین غداری اور ناقابل معافی جرم قرار دیا گیا۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ 18 ویں ترمیم میں کسی بھی شخص کے تیسری بار وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بننے پر پابندی ختم کردی گئی۔
اس ترمیم میں تعلیم اور صحت کے شعبے صوبوں کو مل گئے۔ ایمرجنسی کے نفاذ کا اختیار صوبوں کو مل گیا۔
ان ساری ترامیم میں زرداری صاحب کا ذہن غالب نظر آرہا ہے۔ بظاہر میاں نواز شریف کے تیسری بار بھی وزیراعظم بننے کی راہ میں حائل رکاوٹ دور ہونی تھی لیکن پیپلزپارٹی نے مستقبل کی پیش بندی کی اور ایک مضبوط پناہ گاہ صوبائی اختیارات کے تحت اپنے لیے تیار کرلی۔ اب جو کچھ سامنے آرہا ہے وہ کیا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ صدارتی نظام واپس لایا جارہا ہے۔ لیکن جس وقت یہ ترمیم لائی گئی تھی ملک میں پارلیمانی نظام ہی تھا۔ تو صدارتی نظام اس پوری ترمیم کو ختم کرنے سے نہیں آسکتا۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو صوبوں میں ایمرجنسی لگا کر کچھ مداخلت کرنی ہے اور وہ صوبہ سندھ زیادہ بلوچستان کم ہے۔ اس ترمیم نے رکاوٹ ڈال دی ہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے نواز شریف پھر وزیراعظم بن سکتے ہیں لہٰذا اس کا راستہ روکنا مقصود ہے کوئی صدارتی نظام نہیں آرہا۔
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ اس ترمیم نے آئین توڑنے کو سنگین غداری اور ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے۔
کے پی کے کا نام، کنکرنٹ لسٹ اور دیگر باتیں اور دیگر 102 تبدیلیاں شاید اس قدر اہم نہ ہوں جتنی درج بالا چیزیں ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ترمیم کے خاتمے یا تبدیلی کے اصل مقاصد کیا ہوسکتے ہیں۔ ہدف کیا ہے۔
صدارتی نظام… نہیں۔ یہ صرف عوام کو دھوکا دینے کے لیے ہے۔ عوامی مفادات، ترقی، استحکام، خوبصورت باتیں ہیں۔ اس ترمیم میں تبدیلی کا اصل مقصد کیا ہے۔ بس یہی نظر میں رکھنا ہے۔ اب آپ اچانک جنرل پرویز مشرف کیس کا میڈیا میں اچھلنا دیکھیں۔ یہ مقدمہ بھی ایسے بہت سے مقدمات کی طرح چلتا ہی چلا جارہا ہے۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ 18 ویں ترمیم سے کس کو تکلیف ہے۔ کون ان کے خاتمے کے ذریعے کس کو تحفظ دینا چاہتا ہے اور کس کو روکنا چاہتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جو لوگ تبدیلی اور ترمیم چاہتے ہیں انہوں نے کام بھی شروع کردیا ہوگا۔ یہ جو جمہوریت کے چمپئن ہیں ان کو صرف مسودہ دیا جائے گا اور وہ اسے منٹوں میں منظور کرلیں گے۔ یہ جو سینیٹ میں اچانک اپوزیشن کے 9 سینیٹرز غائب ہوجاتے ہیں۔ اوگرا آرڈیننس سمیت تین بل منظور ہوجاتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کا قانون منظور ہوجاتا ہے۔ یہ سب اسی کی تیاری ہے کہ اچانک 18 ویں ترمیم میں تبدیلی کا بل آئے گا اور اچانک منظور ہوجائے گا۔ اس کے بعد پوری قوم دس پندرہ برس کے لیے ڈھول پیٹے گی۔