سرکاری کالج کی اراضی پر قبضہ ،پرنسپل عدالت عظمیٰ پہنچ گئی،گرائونڈ واگزار کرنے کی استدعا

645

کراچی (رپورٹ :حماد حسین) محکمہ کالج ایجوکیشن کے تحت قائم سرکاری کالج کے گرائونڈ پر قبضہ ختم کرانے کیلیے پرنسپل نے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ رجسٹرار عدالت عظمیٰ کو گرائونڈ واگزار کرانے کی درخواست دیدی۔ ذرائع کے مطابق نارتھ ناظم آباد بلاک این میں واقع گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین کی پرنسپل کی جانب سے ایک درخواست رجسٹرار عدالت عظمیٰ کو جمع کرائی گئی ہے جس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ2004ء میں اس کالج کا افتتاح اس وقت کے سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے کیا تھا۔ کالج کے پی سی ون دستاویز کے مطابق اس کا رقبہ7 ایکٹر پر محیط ہے۔ افتتاح کے بعد ورکس اینڈ سروسز ڈپارٹمنٹ نے اس کی تعمیر کا کام شروع کردیا تھا۔ حیران کن طور پر ورکس ڈپارٹمنٹ نے 16 برس گزرنے کے باوجود کالج کی عمارت حوالے نہیں کی جو کہ ایک طویل عرصہ ہے‘ کالج کی عمارت کسی بھی بائونڈری وال بنائے گئے بغیر تعمیر کی گئی ہے‘ اس لیے علاقہ مکین کالج کے احاطے میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں اور اس کے احاطے کو کھیل کود کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے‘ اسی طرح چند برس قبل کالج کے گرائونڈ کو سرفراز اکیڈمی کا نام دے دیا گیا جو کہ کرکٹر سرفراز احمد کے زیر اہتمام کام کرتی ہے۔ حالانکہ گرائونڈ کی روز مرہ کے امور خود کو سرفراز کا انکل کہلائے جانے والا ضیا نامی شخص اور اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والا جلیل نامی شخص چلاتا ہے۔ 2020ء میں جب میں نے کالج کے پرنسپل کا چارج سنبھالا تو اس وقت کالج کی حالت انتہائی خراب تھی۔ ایکس ای این نے مجھے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ فروری2021ء تک کالج کی بائونڈری وال تعمیر کرادیں گے تاہم کئی مرتبہ یاد دہانی کے باوجود کوئی کام نہیں ہوا جبکہ انہوں نے میرا فون ریسیو کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ 15 مارچ کو میں نے کالج گرائونڈ میں سرفراز سے ملاقات کی اس ملاقات میں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر سینٹرل ایم بی راجہ دھاریجو بھی شامل تھے۔ دونوں نے میرے ساتھ ناروا سلوک کیا اور ان کا اصرار تھا کہ میں اور طلبہ کالج کا عقبی دروازہ استعمال کریں‘ کالج میں 450 طالبات پری انجینئرنگ اور پری میڈیکل میں زیر تعلیم ہیں۔ کالج کا مرکزی دروازہ سرفراز اکیڈمی کے زیر استعمال ہے اور وہ طالبات کو یہ دروازہ استعمال کرنے نہیں دے رہے ہیں۔ گزشتہ تعلیمی سال یعنی سال 2020 ء میں کالج سے صرف50 طالبات نے داخلہ فارمز حاصل کیے تھے تاہم کالج کے غیر محفوظ ماحول اور دھمکیوں کے بعد بیشتر طالبات نے داخلہ نہیں لیا۔ صرف 11 طالبات نے داخلہ لیا اور ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ بلاک ایم نارتھ ناظم آباد میں واقع کالج میں کلاسز اٹینڈ کریں۔ دوسری جانب کالج کی بائونڈری وال نہ ہونے کے سبب کالج کے اندر کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔ کالج کے پنکھے، بلب، پانی کی موٹر وغیرہ یا تو چوری کی جاچکی ہیں یا پھر خراب کردی گئی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کالج کے بینرز بھی سرفراز اکیڈمی چلانے والوں نے پھاڑ کر پھینک دیے ہیں۔ اس ضمن میں سرفراز اکیڈمی کے ذمہ دارضیا سے ان کا موقف جاننے کے لییرابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ سرفراز احمد 2017ء میں جب ورلڈ کپ جیت کر آئے تھے تب ضلعی انتظامیہ کے ذمہ داران نے آکر ہم سے کہا کہ اس گرائونڈ کو ہم سرفراز کو دینا چاہتے ہیں جس کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں اس وقت کے میئر وسیم اخترنے بھی شرکت کی تھی۔ سرفراز اکیڈمی ہم نے رجسٹرڈ کرائی ہے۔