انقلاب

670

انسانی زندگی دو حصوں پر مشتمل ہے۔ انفرادی زندگی، اجتماعی زندگی۔ زندگی کے ان دونوں حصوں کا دارو مدار عقائد و نظریات پر ہے۔ دنیا میں موجود کسی بھی تہذیب کو دیکھ لیجیے، ان کے رہن سہن، اوڑھنے بچھونے، کھانے پینے، لباس، طور طریقے، اخلاقیات اور ان کے وضع کردہ قوانین حکمرانی کے پیچھے عقائد ونظریات ہی کار فرما ہیں۔ جبکہ عقائد ونظریات انفرادی سے زیادہ اجتماعی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اجتماعی زندگی نظام پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ اجتماعی زندگی ہی دراصل نظام ہے۔ ایک عام لیکن غلط تصور کہ نظام بدلنے (انقلاب) کے لیے افراد کی اصلاح فرداً فرداً ضروری ہے، جبکہ یہ انفرادی زندگی ہے اس سے اجتماعی زندگی کو بدلنا ناممکن ہے جس کی تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں۔ اگر نظام کو بدلنا ہو تو لازمی ہے کہ اجتماعی امور کو بدلا جائے۔ ہاں ان اجتماعی امور کو بدلنے کے لیے ابتداً جتنے افراد کی ضرورت ہو ان کی انفرادی تربیت ضروری ہے۔ یاد رہے کہ جو محنت افراد کی اصلاح پر صرف کی جاتی ہے اس کا عشر عشیر بھی اگر اجتماعی زندگی کی اصلاح پر صرف کی جائے تو بہت جلد نظام بدل جاتا ہے۔ جبکہ نظام بدلنے سے افراد کی اصلاح خود بخود ’طوعاً و کراہاً ہو ہی جاتی ہے اس کے لیے الگ سے محنت کی ضرورت نہیں رہتی، عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ درخت کی شاخوں پر محنت کے بجائے اس کی جڑ کو سیراب کیا جائے تاکہ محنت رائیگاں نہ جائے۔ چنانچہ انقلاب یعنی نظام کو بدلنے کے لیے پہلے درجے میں تین امور لازمی ہیں۔
اول: نظام تعلیم کو بدلا جائے۔ معیاری انداز میں اپنی روایات کو مد نظر رکھ کرمرتب کیا جائے تاکہ مقصود اصلی کا حصول آسان ہو۔ دوم: علاج معالجے اور کھانے پینے کے طور طریقوں کو اپنی قوم اور ملت کے مفاد کو مد نظر رکھ کر مرتب کیا جائے۔ سوم: لباس ضرورت کو پوراکرنے والا اور معاشرے کے مطابق فروغ دیا جائے۔
پہلے درجے کے امور کے بعد پچانوے فی صد کام مکمل ہے۔ عوام ذہنی، جسمانی اور معاشی اعتبار سے آپ کے اختیار میں ہیں۔ اب دوسرے درجے کا پانچ فی صد کا باقی ہے جس میں مفاد پرست ٹولے کو حکمت عملی سے بزور بازو ہٹا کر اللہ اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نظام حکمرانی سنبھالا جائے۔ اب نظام مکمل طور پر آپ کے ہاتھ میں ہے، نظام کو دوام بخشنے کے لیے پہلے درجے کے امور پر اپنی گرفت مضبوط رکھیں۔ یہ عالمگیر اصول ہیں ان اصولوں پر فتح کی گئی اقوام فاتح کی غیر موجودگی میں بھی دل وجان سے اس کے وضع کردہ قوانین پر عمل پیرا ہوتی ہے، برصغیر کا خطہ واضح مثال ہے جو آ ج بھی ان انگریزوں کے قوانین پر ان کی غیر موجودگی میں عمل پیرا ہے۔ آج انہی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر مغرب اور صہیونیت پوری دنیا پر قابض ہے۔
یاد رہے! یہ اصول جن کے ذریعے مغرب دنیا کا نظام اپنے اختیار میں لے کر ورلڈ آرڈر کا خواہاں ہے، ہمارے پیغمبر محمد رسول اللہؐ نے ہمیں شریعت کے طور پر عطا کیے۔ جب تک ان اصولوں کی اہمیت کو ہمارے دلوں میں رہی ساری دنیا میں خلافت کا ڈنکا بجتا تھا۔ جب ہم نے ان اصولوں کو بے وقعت سمجھا اپنے پہلے درجے کے امور غیروں کے حوالے کیے تب سے ہم محکوم، مغلوب او رغلام بنے۔
ذرا سوچیے پیغمبرؐ نے سب سے پہلے نظام تعلیم سے کام شروع کیا۔ اور سب کو اجتماعی طور پر پہاڑ پر بلا کر کہا کہ لا الہ الا اللہ کہہ دو کامیاب ہو جائو گے۔ آگے چل کر فرمایا: ’’انا بعثت معلماً‘‘ میں استاد بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ پھر دوران تعلیم ہی نظام صحت پر محنت کرتے ہوئے علاج معالجے اور کھانے پینے کے بارے میں بنیادی اصول وضع کیے اور ساتھ ہی لباس سے متعلق بنیادی ہدایات بھی دیں۔ چنانچہ جب انفرادی تربیت سے چند لوگ تیار ہو گئے تو پہلے درجے کے ان تینوں امور کے ذریعے انقلاب (نظام بدلنے) کی جدو جہد شروع کی اور جب تین سو تیرہ کو پہنچے تو اس وقت کے حالات کے مطابق باقاعدہ زور بازو سے ریاست کی بنیاد رکھی جا چکی تھی۔
یاد رہے کہ! ریاست کے قیام سے زیادہ مشکل ریاست کا دوام اور پھیلائو ہے۔ جس کا انحصار پہلے درجے کے امور یعنی تعلیم علاج و خورو نوش اور طرز لباس پر منحصر ہے۔ جبکہ قیام فقط عسکری قوت سے بھی ممکن ہے۔ لیکن جب تک پہلے درجے کے امور پر اختیار نہ ہو ریاست کا دوام مشکل ہے۔ حاصل یہ کہ اس ناکام اور ظالم نظام سے چھٹکارا لازم ہے۔ جو کہ مہنگائی، فحاشی وعریانی، جرائم، غلامی اور نسل نو کی تباہی کا سبب تو ہے ہی لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ ہمارا نظام نہیں، مغرب کا نظام ہے جسے دین الٰہی کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا ہے۔ بقول اقبال
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے!
کوئی بھی نظام حکمرانی فقط نظام نہیں بلکہ دین ہوتا ہے۔ جمہوریت بھی ایک مکمل دین ہے جسے دین الٰہی کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے نظام تعلیم، نظام صحت اور لباس کو کو اپنے اختیار میں کرنا ہوگا تب ہم اس نظام سے نجات حاصل کرسکیں گے۔ اپنے لیے نہ سہی اپنی نسلوں کے لیے ابھی سے جدو جہد کیجیے کہیں دیر نہ ہو جائے۔