لانگ مارچ… پہلے پیپلز پارٹی پھر پی ڈی ایم

577

ہمارے دوست کہتے ہیں کہ لانگ مارچ پٹاری کا وہ سانپ ہے جس کا شور تو بہت مچا ہوا ہے لیکن ابھی تک کسی سپیرے نے اسے نکال کر نہیں دکھایا۔ پی ڈی ایم نے اعلان کیا تھا کہ وہ 23 مارچ کو مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کرے گی۔ مہنگائی ایک ایسا ایشو ہے جس پر اپوزیشن کی تمام جماعتوں کا اتفاق ہے بلکہ حکومت بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ ہاں مہنگائی ہے لیکن اتنی نہیں کہ اس پر لانگ مارچ کیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ دوسرے ملکوں سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان اب بھی دنیا کے دوسرے ملکوں سے سستا ترین ملک ہے۔ اس لیے لانگ مارچ کا جواز نہیں بنتا۔ مہنگائی تو ایک بہانہ ہے دراصل پی ڈی ایم عمران خان کی حکومت کو رخصت کرنا چاہتی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ موجودہ حکومت جعلی انتخابات کے ذریعے وجود میں آئی ہے اسے ایلیکٹ نہیں سیلیکٹ کیا گیا ہے اور سیلیکٹ کرنے والے اس کی کارکردگی دیکھ کر کف افسوس مل رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں تحریک انصاف کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو مولانا فضل الرحمن نے چمک کر کہا کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ یہ حکومت سلیکٹرز کے سہارے چل رہی ہے۔ سلیکٹرز نے ذرا سا ہاتھ ہٹایا تو بلدیاتی انتخابات میں نتیجہ سامنے آگیا۔ مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ تھا کہ سلیکٹرز کی ان کے لیڈر سے بات چیت چل رہی ہے اور میاں صاحب نے ہدایت کی ہے کہ اس معاملے کو میڈیا میں نہ اچھالا جائے جب بات چیت فائنل ہوجائے گی تو وہ خود اس کا انکشاف کریں گے اور فتح کا پرچم لہراتے ہوئے پاکستان تشریف لائیں گے۔ زرداری نے بھی اس موقع پر تُکا مارا اور دعویٰ کیا کہ سلیکٹرز انہیں مدد کے لیے بلارہے ہیں لیکن انہوں نے کہا ہے کہ پہلے سلیکٹڈ کو رخصت کرو پھر بات ہوگی۔ لیکن گزشتہ روز فوج کے ترجمان نے اس سیاسی کھچڑی کی ہانڈی کو بیچ چوراہے پہ یہ کہتے ہوئے پھوڑ دیا کہ فوج یا اسٹیبلشمنٹ کو موجودہ حکومت کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آئین کے مطابق فوج حکومت کی وفادار ہے اور اس کی ہدایات پر عمل کررہی ہے جو لوگ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات کے شوشے چھوڑ رہے ہیں اور یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ فوجی قیادت ان کے ساتھ رابطے میں ہے۔ وہ اس کا ثبوت پیش کریں۔ ظاہر ہے کہ اس دو ٹوک بیان سے اپوزیشن میں سناٹا چھا گیا اور کسی نے بھی اس بیان کو چیلنج نہیں کیا۔
اب یہ ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم سے اپنا راستہ جدا کرلیا ہے۔ راستہ تو خیر اس کا پہلے بھی الگ تھا، اسے پی ڈی ایم کی کسی حکمت عملی سے اتفاق نہ تھا۔ حکومت کے خلاف اس کا پلان بالکل مختلف تھا بس شرماشرمی وہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں شریک ہوجاتی تھی۔ زرداری اور ان کے ہونہار صاحبزادے کی حکمت عملی یہ ہوتی تھی کہ پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں کوئی فیصلہ نہ ہونے پائے، اگر ہو بھی تو متفقہ نہ ہو اور اس کا اختلافی نوٹ ہر حال میں برقرار رہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے ہر اجلاس میں اسمبلیوں سے استعفا دینے، لانگ مارچ کرنے اور اسلام آباد میں حکومت کی رخصتی تک دھرنا دینے پر زور دیا۔ مسلم لیگ (ن) تو ان کی تائید کرتی رہی لیکن پیپلز پارٹی نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں، وہ کسی بات پر راضی نہ ہوئی اور معاملہ ٹلتا رہا۔ آخر مولانا فضل الرحمن کی کوششیں رنگ لائیں اور وہ کسی طرح یہ فیصلہ کرانے میں کامیاب رہے کہ پی ڈی ایم 23 مارچ کو مہنگائی کے خلاف اسلام آباد میں لانگ مارچ کرے گی۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ مہنگائی کے خلاف کیوں، حکومت کے خلاف کیوں نہیں؟ آخر مہنگائی نے پی ڈی ایم کا کیا قصور کیا ہے وہ تو حکومت کی دعوت پر آئی ہے، حکومت اس کی میزبانی سے انکار کردے تو وہ اُلٹے قدموں واپس چلی جائے گی۔ اصل قصور وار تو حکومت ہے، لانگ مارچ اس کے خلاف ہونا چاہیے۔ لیکن پی ڈی ایم کے پاس اس اعتراض کا کوئی جواب نہیں ہے۔ خود مولانا صاحب کو بھی وضاحت کرنے سے منع کردیا گیا ہے کس نے منع کیا ہے؟ شاید یہ بھی کوئی دُکھتی رگ ہے جسے چھیڑنا مناسب نہیں۔ ایسے میں پیپلز پارٹی نے اس کھیل میں کھنڈت ڈالتے ہوئے 27 فروری کو کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کردیا ہے۔ یہ اعلان آصف زرداری کے فرزند ارجمند بلاول زرداری نے بڑے طمطراق سے کیا ہے۔ وہ بھی مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کرنا چاہتے ہیں۔ حالاں کہ صاحبزادے کو مہنگائی کی ہجے بھی معلوم نہیں۔ ان کے والد نامدار نے ان کے لیے اتنی دولت اکٹھی کردی ہے کہ وہ خود اس کا اندازہ نہیں رکھتے۔ انہیں کیا معلوم کہ مہنگائی کیا ہوتی ہے لیکن عوام کی ہمدردی میں وہ بھی مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ پر تُل گئے ہیں۔ یہ لانگ مارچ 27 فروری کو کراچی سے چلے گا اور طویل فاصلہ طے کرکے اسلام آباد پہنچے گا، البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ لانگ مارچ کے شرکا ٹرین کے ذریعے اسلام آباد آئیں گے یا سڑک کے راستے سفر کریں گے۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ اس لانگ مارچ کا مقصد 23 مارچ کے لانگ مارچ کو سبوتاژ کرنا ہے جو پیپلز پارٹی کے نزدیک مسلم لیگ (ن) کا پاور شو ہوگا۔ لاہور کے ضمنی انتخاب نے واضح کردیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) سے ہوگا اور تحریک انصاف درمیان سے نکل جائے گی جیسا کہ لاہور میں ہوا۔
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ 23 مارچ کے لانگ مارچ کو تو خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے سے سبوتاژ کردیا ہے یہ انتخابات ان ہی تاریخوں میں ہوں گے جب لانگ مارچ کا بگل بجے گا۔ مولانا فضل الرحمن کے نزدیک ان انتخابات کی بڑی اہمیت ہے ان کی جماعت انتخابات کے پہلے مرحلے میں نمایاں کامیابی حاصل کرچکی ہے اب اس کے لیے اس کامیابی کا تسلسل برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اس لیے کہا جارہا ہے کہ شاید مولانا فضل الرحمن خود ہی لانگ مارچ ملتوی کردیں اور انتخابی اکھاڑے میں کود پڑیں۔ ظاہر ہے کہ انہیں انتخابی اکھاڑے میں کودنا ہی ہے۔ ایک دوست نے راز کی بات یہ بتائی ہے کہ پیپلز پارٹی بھی لانگ مارچ میں سنجیدہ نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ بھی اسے ملتوی کرنے کا اعلان کردے۔ اس طرح راوی عمران حکومت کے لیے چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ یہ کرشمہ ہے فوجی ترجمان کے اس بیان کا جس نے سیاسی کھچڑی کی ہانڈی بیچ چوراہے میں پھوڑ دی ہے اور اپوزیشن کو حیران و ششدر کردیا ہے۔