چین امریکا کشمکش میں یورپ واشنگٹن کا ساتھ دے گا

675

کراچی ( رپورٹ \ محمد علی فاروق) چین امریکا کشمکش میں یورپ واشنگٹن کا ساتھ دے گا‘ جرمنی ، اٹلی، فرانس ،نیدر لینڈ ، بیلجیئم اور آسٹریا چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ سے عدم تحفظ کا شکار ہیں ‘ دونوں کی کشیدگی عالمی معیشت اور استحکام کو متاثر کر رہی ہے‘ چین مغربی دنیا کو تقسیم کر رہا ہے‘افغان انخلا کے بعد امریکا کے قابل ہونے پر سوال اُٹھ رہا ہے۔ ان خیا لا ت کا اظہار معروف تجزیہ کار، سابق سفارت کار عبدالباسط، جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم، معروف بین الاقوامی امور کے ماہر تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر اور بین الاقوامی امور کی ماہر پروفیسر ڈاکٹر ہما بقائی نے جسارت کے اس سوال کے جواب کیا کہ ’’چین اور امریکا کی کشمکش میں یورپ بالا ٓخر کس کا ساتھ دے گا؟‘‘ عبدالباسط نے کہا کہ یورپ خود کو امریکا کا فطری ساتھی سمجھتا ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ یورپی ممالک چین کے ساتھ باہمی طور پر فائدہ مند تعلقات رکھنا نہیں چاہتے‘ نئی سرد جنگ دوسری جنگ عظیم کے بعد کی سرد جنگ سے مختلف ہے‘ مجھے لگتا ہے کہ ہم متضاد حالات دیکھتے رہیں گے‘ اس بار ان دونوں کے درمیان کوئی آہنی دیوار حائل نہیں ہے‘ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے مقابلہ، تصادم اور تعاون ساتھ ساتھ چلیں گے۔ امیر العظیم نے کہا کہ یورپی ممالک کا امریکا کا ساتھ دینا ایک افسوس ناک عمل ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں خود یورپ کو کچھ حاصل نہیں ہوا‘ امریکا تو پھر بھی اپنی بالادستی کے خواب دیکھ رہا ہے اور اس بالادستی کے لیے ہی وہ اس کشمکش کو جاری رکھنا چاہتا ہے‘ یورپ اپنے آپ کو تہذیب اور انسانی حقوق کا علمبردار، آزادی اظہار رائے کا چیمپئن سمجھتا ہے لیکن عملی طور پر پوری عالمی سیاست امریکا کو ٹھیکیدار ایا تھانیدار سمجھ کر اس کے آگے جھکتی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں اس دنیا میں کشمکش اور جنگیں ختم ہونے کے بجائے انسانیت مزید عذاب سے گزر رہی ہے‘ اس میںکسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ امریکا اور چین کی کشمکش میں یو رپ پہلے بھی امریکا کا ساتھ دیتا رہا ہے اور آگے بھی امریکا کا ساتھ ہی دیتا رہے گا۔ پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ چین امریکا کی کشمکش کو سرد جنگ کہا جاتا ہے‘ یہ اس طرح کی سرد جنگ نہیں ہے جو امریکا اور سوویت یونین کے درمیان لڑی گئی تھی یا ویسٹن اور کمیونیسٹ بلاک کے درمیان لڑی گئی تھی‘بہرحال اس وقت کی کشمکش میں دونوںکے مفادات کا ٹکراؤ ہے ہمیں خاص طور پر یورپی یونین کو سمجھنا چاہیے‘ ان کی سر براہی امریکا کر رہا ہے کیونکہ یورپ فطری طور پر امریکا کا اتحادی ہے‘ میرے خیال میں اس کشمکش میں یورپ امریکا کا ہی ساتھ دے گا‘ اس کی 2 وجوہات ہیں پہلا تعلق جمہوریت اور سرمایہ داری نظام سے ہے یورپی ممالک نظریاتی اور ثقافتی حوالے سے ایک دوسرے کے قریب ہیں ‘ دوسرا تعلق جرمنی، اٹلی، فرانس، نیدر لینڈ، بیلجیئم اور آسٹریا ہے یہ وہ ممالک ہیں جو چین کے یورپ میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھ کر عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیںاور ان تمام کے مفادات میں بھی ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے بلکہ چین نے امریکا میں ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے جبکہ امریکا چین کا سب سے بڑا قرض دار بھی ہے ‘ ایسی صورتحال میں یورپی یونین امریکا پر دباؤ ڈالے گی کہ وہ چین کے ساتھ کشیدگی کو مربوط و منظم اور مثبت انداز میں حل کرے اور اسے اس صورت حال میں نہ لے جائے کہ حالات بے قابو ہو جائیں جو بھی کشمکش ہے اس کو فوجی کشمکش نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی اس کے نتیجے میں ایک دوسرے کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جاسکتا ہے‘یو رپ یہ چاہتا ہے کہ اس موقع پر دنیا کسی بڑے تصادم کا شکا ر نہ ہو تاہم یورپ کا کردار مثبت تو ہوگا مگر وہ امریکا کا ساتھ ہی دے گا۔ ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ کینیڈا کے وزیر اعظم کی جانب سے اس وقت بہت دلچسپ موقف آیا ہے کہ انہوں نے اس طرف اشارہ کیا کہ چین مغربی دنیا کو تقسیم کر رہا ہے اور مغربی دنیا کو جڑ کر چائنا سے مقابلہ کرنا چاہیے لیکن صورت حال ایسی ہے کہ یہ کہنا آسان اور کر نا مشکل ہے کیونکہ سب ممالک چین سے انفرادی مفادات حاصل کر رہے ہیں اور یورپ بھی چین کے حوالے سے کافی پریشانی کا شکار ہے‘ امریکا کے افغانستان سے انخلا کے فیصلے پر اس کے تمام اتحادی یہ سوچتے ہیں کہ اب کیا امریکا قابل بھروسہ رہا بھی ہے یا نہیں اور آئندہ دونوں طاقتوں میں سے کس کا چنائو کیا جائے ، جب ہم پہلے چین امریکا کی بات کر تے تھے تو نظریاتی اختلافات کی بات کیا کرتے تھے اور اب ہم جب بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں ان دونوں ممالک کی کشیدگی عالمی معیشت اور بین الاقوامی استحکام کو متاثر کر رہی ہے لیکن امریکی صدر جوبائیڈن کی چینی صدر سے ملاقات کے باعث سیاسی طور پر دونوںممالک میں تناؤ کم ہوا ہے‘ ایک جانب وہ ممالک ہیں جو جمہوریت پسند ہیں اور دوسری جانب چین جیسے ممالک ہیں ‘ابھی بھی امریکا کے سیاسی نظام پر بہت سے سوالیہ نشانات ہیں بالخصوص جن ممالک پر امریکا نے جنگ مسلط کی ان میں عراق، افغانستان اور لیبیا شامل ہیں، سوال پھر یہی اٹھتا ہے کہ امریکا نے یہ جو بھی کیا وہ جمہوریت ہے۔