نااہل قیادت مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنی ، سابق سفرا

5052
سابق ہائی کمشنر دفاعی تجزیہ کار سفیر افراسیاب مہدی ہاشمی قریشی،سفیر خالد محمود،ائرمارشل مسعود اختر سیمینار سے خطاب کر رہے ہیں

کراچی ( رپورٹ \محمد علی فاروق )ا ندرونی سیاسی بدانتظامی، نازک معاشی حالات، سماجی انصاف کی عدم موجودگی، ناقص قانون اور نظم و نسق اور قیادت کی نااہلی نے حالات کو ابالنے میں بڑا کردار ادا کیا جو آخرکار مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنا، مسٹر جناح ٹھیک کہتے تھے‘‘ جب انہوں نے کہا کہ پاکستان کواقوام عالم میں اپنی صحیح جگہ بنانے کے لیے “اندرونی امن اور بیرونی امن” حاصل کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے “سیکنڈ ٹو نن” ائر فورس ہونی چاہے ۔ان خیالات کا اظہارپاکستان ائر فورس کے سابق سینئر افسران اور نامور سفارت کاروں میں بنگلا دیش، بھوٹان اور نیوزی لینڈ میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر دفاعی تجزیہ کار سفیر افراسیاب مہدی ہاشمی قریشی،سفیر خالد محمود،ائرمارشل مسعود اختر (ریٹائرڈ)، سابق ڈپٹی چیف آف ائر اسٹاف (ٹریننگ)، چیئرمین بورڈ آف گورنرز، انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد سابق ائر کموڈور جمال حسین نے سینٹر فارائروسپیس اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز (CASS) کے زیر اہتمام “دسمبر 71 کی فضائی جنگ میں پی اے ایف کی قابلیت کی داستان” پر منعقدہ قومی سیمینار کے دوران کیا ۔

سیمینار کی صدارت صدر CASS سابق ائر مارشل فرحت حسین خان نے کی جبکہ ڈائریکٹر وارفیئر اینڈ ایرو اسپیس سابق ائر وائس مارشل فہیم اللہ ملک نے کارروائی کی نظامت کی۔ سابق سفیر افراسیاب نے1971 کے دوران پاکستان کو درپیش اندرونی مسائل پر روشنی ڈا لتے ہوئے کہا کہ اندرونی سیاسی بدانتظامی، نازک معاشی حالات، سماجی انصاف کی عدم موجودگی، ناقص قانون اور نظم و نسق اور قیادت کی نااہلی نے حالات کو ابالنے میں بڑا کردار ادا کیا جو آخرکار مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اس وقت بھی دنیا تیزی سے مذہبی فسطائیت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سفیر افراسیاب نے نتیجہ اخذ کیا کہ 1971 ایک سانحہ تھا لیکن جناح کا وژن 100 فیصد درست تھا کیونکہ دوقومی نظریہ آج تک زندہ ہے۔سابق سفیر خالد محمود نے اقوام متحدہ میں اتحاد کی سیاست اور ان کے اثرات بیان کیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو1971 کے بحران کے دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ارکان کی زبردست سفارتی حمایت حاصل تھی۔ تاہم، یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تھا، جہاں روس نے بھارت کا ساتھ دینے اور پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کرنے کے لیے ویٹو پاور کا استعمال کیا۔ یہاں چین کا کردار اہم تھا جو اس تمام مشکل وقت کے دوران پاکستان کا زبردست حامی رہا۔ ترکی نے یو این ایس سی کا رکن نہ ہونے کے باوجود بھی بہترین کردار ادا کیا۔

ائیر مارشل مسعود اختر نے اپنے خطاب میں مجموعی طور پر پاکستان کی سیاسیات، مشرقی اور مغربی پاکستان میں قائداعظم کی رحلت کے بعد کا ماحول، مسلح افواج کی تعمیر و تشکیل، دفاعی اسٹیبلشمنٹ بالعموم اور پی اے ایف بالخصوص، کے کردار کا جائزہ پیش کیا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ 1971 کے پس منظر میں ہم اکثر رکاوٹوں کو دیکھنے سے کتراتے ہیں جن کے باوجود، پی اے ایف نے اپنے سے ایک بڑی فضائیہ سے برابری کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ائر مارشل اختر نے زور دیا کہ قومی سلامتی کے کسی بھی نمونے کو کامیاب ہونے کے لیے مشترکہ مقصد اور مشترکہ شناخت کی ضرورت ہے جس کے لیے قومی مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

ائر کموڈور جمال حسین (ریٹائرڈ) نے 1971 کی جنگ کے دوران فضائی مہم میں شامل حکمت عملی اور آپریشنز کا تجزیہ کیا اور ڈھاکا میں نمبر 14 اسکواڈرن کے بہادر پائلٹس، دیکھ بھال اور معاون عناصر کے ساتھ ساتھ فضائی دفاع کے ریڈار کنٹرولرز اور جہازشکن گنرز کو خراج تحسین پیش کیا۔ .

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حتمی المناک نتائج کے باوجود، دستیاب اعداد و شمار کی بنیاد پر، 1971 میں پی اے ایف کی کارکردگی اس کی پیشہ ورانہ مہارت اور تربیت کی سطح کے پیش نظر اگر 1965 سے بہتر نہیں تو برابر ضرور تھی۔

صدر CASS ائر مارشل فرحت حسین خان (ریٹائرڈ) نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ سیمینار کا انعقاد پاک فضائیہ کی اس غیر معمولی لگن، بہادری، قربانی اور جذبے کی وجہ سے کیا گیا تھا جو ایک عظیم قومی سانحے کی وجہ سے چھپی رہی۔ “یہ ضروری ہے نوجوان نسل کو ان مشکل حالات میں پی اے ایف کی قابل ستائش کارکردگی سے بار بار آگاہ کریں،پی اے ایف افسران کی کہانیوں کو دوبارہ سنانا اس لیے ضروری ہے کہ انہوں نے1971 کی جنگ میں اپنی قربانیاں اس لیے دی تھیں تاکہ قوم زندہ رہے

(سی اے ایس ایس) اختتامی خطاب میں صدر  نے تمام مقررین کے تجزیہ سے اتفاق کیا کہ بدقسمتی سے مشرقی پاکستان کا ٹوٹنا راتوں رات نہیں ہوا، بلکہ یہ مسلسل حکومتی بدانتظامی، ناکام سفارت کاری، غلط فوجی حکمت عملی , سیاسی بدنظمی اورمختلف داخلی پہلوؤں کی ناکامیوں کی انتہا تھی۔

انہوں نے کہا کہ 1971 ء کی جنگ کے بعد، مختلف رکاوٹوں کے باوجود، پی اے ایف نے موجود خطرات کے ادراک اور آپریشنل تصورات کے مطابق اپنی صلاحیت کو بڑھانا جاری رکھا ہے ائیر مارشل خان نے نشاندہی کی کہ مستقبل کے تنازعات زمینی نہیں بلکہ علمی میدان میں لڑے جائیں گے۔ انہوں نے اس بات کو سراہا کہ پی اے ایف ان تبدیلیوں سے آگاہ ہے، اس لیے غیرروایتی طریقہِ جنگ ، مصنوعی ذہانت ، سائبر اور خلا کا استعمال اس کے تصورات میں نمایاں ہے۔