مغرب افغانستان میں مداخلت کے بجائے سہارا بنے

493

دنیا بھر کے دانشوروں کی متفقہ رائے ہے کہ اب ہمیں افغانستان کے بارے میں تمام تحفظات اورپریشانیوں کوکنارے کردیناچاہیے۔ اب ان باتوں سے کوئی بے وقوف نہیں بن سکتا کیوں کہ امریکا، برطانیہ، نیٹو اور ان کے حامیوں کے پاس افغانستان کواپنے پیروں پرکھڑا کرنے،انسانی حقوق فراہم کرنے، مساوات اور بدعنوانی سے پاک جمہوری حکومت قائم کرنے کے لیے 20سال تھے،مگروہ ناکام ہوگئے۔ 2002ء میں فنڈکی ترسیل دوبارہ شروع ہونے اوراس کے بعدکروڑوں ڈالرمزید فراہم کرنے کے باوجودعورتوں کے حقوق کے بل کے علاوہ بمشکل کچھ ہی بہترہوسکا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کابل دنیاکی بدعنوان ترین حکومت کاگھربنارہاجوکہ اس وجہ سے ترقی نہیں کر پایاکہ وہاں کے لالچی سیاست دان اور ’’وارلارڈز‘‘ افغانستان کی تعمیروترقی سے زیادہ اپنی جیبیں بھرنے کے فکرمندتھے۔ اس میں کوئی حیران کن بات نہیں کہ طالبان نے دوبارہ ملک پر غلبہ حاصل کرلیااور انہوں نے اتنی تیزی سے کنٹرول حاصل کیاکہ اس نے بہت سے فوجی و سیاسی مدبروں بالخصوص امریکااوراس کے اتحادیوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ بیشترصوبوں میں طالبان واپسی پرپرجوش خیرمقدم کیا گیااوران علاقوں میں بھی انہیں کسی قسم کی مزاحمت کاسامنانہ کرناپڑاجن علاقوں پران کے پہلے دورحکومت میں رسائی نہ مل سکی تھی اور اب پنج شیروادی پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعدمکمل افغانستان کواپنی گرفت میں لے چکے ہیں۔
20سال تک طالبان کو دہشت گرد اور شیطان صفت مشہورکرنے کے بعدبھی افغانستان میں ان کی پذیرائی نے یقیناًمغربی حکومتوں اوران کے زیرِاثرمیڈیاکونہ صرف شرمندگی میں مبتلا کردیاہے بلکہ اب ان کے سچ بولنے کی ساکھ کابھی دھڑن تختہ ہوگیا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ افغانستان میں بچیوں کے اسکولوں کوبندکردیاگیاہے اوربچوں کوپتنگیں اڑانے تک پرپابندی لگ گئی ہے۔ آج وقت نے یہ ثابت کردیاکہ یہ باتیں محض کہانی کوڈراؤنا بنانے کے لیے تھیں ورنہ اس میں ذرہ برابرصداقت ثابت نہیں ہوسکی۔ درحقیقت اگرصحافی معاملے کی چھان بین کرتے تووہ باآسانی جان لیتے کہ اسکول ویران اورکھنڈرصرف اس لیے ہوگئے تھے کہ طالبان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ ملک کے بیشترحصوں میں قحط پڑگیاتھااوریہ سب ملک میں اس خوفناک جنگ کانتیجہ تھاجس نے امریکاکوواحدسپرپاورتوبنادیالیکن افغانوں اوراس کے ہمسایہ اورمددگارپاکستان کواس کی بھاری قیمت چکانی پڑی لیکن جواب میں امریکااوراس کے اتحادی اپنے مفادات کی تکمیل پرجشن مناتے ہوئے اپنے تمام وعدے بھول گئے اورتاریخی بے وفائی اورچشم پوشی کے مرتکب ہوئے۔ پتنگیں اڑانے پربڑے شہروں اورقصبوں میں بلاشبہ پابندی تھی کیونکہ اس کی پتلی اورتیزدھارڈوروں سے نہ صرف یہ کہ بجلی کے تار کٹ رہے تھے جس سے علاقوں کو بجلی کی فراہمی معطل ہوجاتی بلکہ لوگوں کی اموات بھی واقع ہورہی تھیں۔سوچیں کہ آپ لندن کی آکسفورڈ اسٹریٹ یانیویارک کی 42سٹریٹ میں پتنگ اڑارہے ہیں پھرآپ کوسمجھ آجائے گاکہ افغانستان میں پتنگ اڑانے پرپابندی کیوں تھی۔
فروری2002ء میں اس وقت میڈیامیں اس بات کابہت چرچاتھاکہ طالبان کی شکست کے بعد کابل یونیورسٹی دوبارہ کھل رہی ہے اوراب لڑکیاں دوبارہ اسکول جاسکیں گی۔بہت سے لوگوں کاخیال تھاکہ اب جنگ ختم ہوچکی ہے اورمستقبل روشن ہے۔یقیناایساہی لگتاتھامگر جب ایک پریس کانفرنس میں سوال پوچھاگیاکہ اگرطالبان کے دورمیں لڑکیوں کوتعلیم سے روکاجاتاتھاتواب لڑکوں کے مقابلے میں کتنی زیادہ لڑکیوں نے داخلہ امتحان پاس کیاہے تووہاں برف کی خاموشی چھاگئی اورمغربی میڈیا کاجھوٹ بھی آشکار ہوگیا۔
اسٹاک ہوم میں جاری پریس کانفرنس میں سوال کرنے والی بہادرخاتون ’’ایوان رڈلے‘‘کوجواب دینے کے بجائے اس کی بیخ کنی کرکے اسے کنارے لگانے میں عافیت سمجھی گئی اوراپنی ندامت کوچھپانے کے لیے یہ زہریلاپروپیگنڈہ کیاگیاکہ موصوفہ طالبان کی 10 دن قید میں خوفناک آزمائش میں گزری ہیں جس کے بعدیہ ایک نفسیاتی بیماری کاشکارہوچکی ہیں جبکہ بقول ایوان رڈلے ’’اپنے قیدکرنے والوں کی فرمانبرداری یاکسی قسم کا کوئی لگاؤتودور،میں توان

کے لیے ایک دردِ سرتھی۔ درحقیقت مجھے نہیں معلوم کہ رہائی پاکربخیروعافیت میرے برطانیہ بھیجے جانے پرکون زیادہ خوش تھا،میں یاطالبان جبکہ میری رہائی کے اعلان کے وقت ایک پریس کانفرنس میں ملاعبدالسلام ضعیف نے کہاکہ یہ ایک بہت بری اوربدزبان خاتون ہے۔ مجھے طالبان نہیں پسندتھے اوریقیناً انہیں بھی میں بالکل ناپسندتھی لیکن بحیثیت صحافی، میں نے سچائی کی اشاعت کوہمیشہ اپنی ذمے داری سمجھاہے اورسچائی یہ ہے کہ میرے قیدکرنے والے میرے ساتھ جس محبت واحترام سے پیش آئے اس کی مجھے توقع نہ ۔تھی مزیدیہ کہ میں دیکھ سکتی تھی کہ وہ اپنے ملک سے محبت کرتے تھے اورامریکااوراس کے حواریوں سے اپنے ملک کوواپس حاصل کرنے کی جنگ میں ہمت ہارنے کوتیارنہ تھے‘‘۔
امریکا، مغربی اتحادی اوران کے حواری،چیلے چانٹے اس بات کوپسندکریں یانہیں مگرطالبان نہ کبھی اپنے مقاصدسے ڈگمگائے اورنہ ہی کبھی انہوں نے اپناکوئی خفیہ ایجنڈارکھا۔ امریکا اوراس کے مغربی اتحادی شایدطالبان کے نقطہ نظراوران کے عقائدونظریات کوپسندنہ کریں اورطالبان کے طریقہ حکومت کوبھی ناپسندقرار دیتے ہوئے کبھی بھی اپنے ممالک میں نافذ کرنے کے خیال سے بھی کترائیں اوراس کی بے شماردلیلیں ہوسکتی ہیں مگرایمانداری سے اپنے دل پرہاتھ رکھ کریہ سوچیں کہ انہیں بھی یہ حق نہیں اورنہ ہی یہ توقع کرنی چاہیے کہ طالبان اوران کے حامی امریکی ومغربی کلچر،عقائداورمغربی عادات کواپنائیں جنہیں وہ ناقابلِ برداشت سمجھتے ہیں؟
امریکااوراس کے اتحادیوں کے قول وفعل کااس سے بڑھ کراورکیاتضادہوسکتاہے کہ ساری دنیاکے سامنے دوحہ میں باقاعدہ امن معاہدہ کی شرائط کااعلان ہوا، اس پر دستخط ہونے کے بعدمعاہدے کی روسے مئی میں تمام غیرملکی افواج کاانخلا ہوناضروری تھالیکن معاہدہ امن کی پاسداری کے بجائے امریکااپنے اتحادیوں کی مددسے طالبان کے ٹھکانوں پربمباری کرتارہااورنہ صرف انخلا کی تاریخ میں بھی 3ماہ کی تاخیرکرکے اس معاہدے کے پرخچے اڑا دیے بلکہ اس معاہدے کی1526مرتبہ خلاف ورزیاں اپنے ریکارڈ پر چھوڑ گیا۔ اس دوران مغربی میڈیاکی طرف سے داعش کے اسپتال اوردیگرعوامی مقام پرخودکش حملوں کوطالبان کے ساتھ جوڑکردنیا بھربدنام کرنے کاسلسلہ شروع کردیاگیاجبکہ خودداعش ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی رہی۔بعدازاں طالبان نے ان علاقوں سے داعش کاخاتمہ کیا۔کوئی ان سے یہ توپوچھے کہ اپنے مفاد کے لیے افغانستان میں داعش کوکون لایاتھا؟اب وقت آگیاہے کہ مغرب بڑاقدم اٹھائے اور 20 برس میں افغان عوام کو لگائے ہوئے ہولناک زخموں پرمرہم رکھتے ہوئے فوری مداخلت بندکرے اوراس بات کوبھی تسلیم کرے کہ اگر افغان عوام امریکااور مغرب کی جانب سے مسلط کی گئی حکومت سے نجات چاہتے ہیں تویہ ان کامسئلہ ہے،ہمارانہیں۔
ان20 برس میں ہونے والے ہولناک مظالم کاصرف ایک باب”تورابورا” کے حقائق دنیاکے سامنے آجائیں توامریکااوراس کے اتحادی اپنی ہی نسلوں سے آنکھ نہیں ملا سکیں گے۔ایک ایسے ملک پرجس کی سرے سے کوئی ائرفورس ہی نہیں تھی،اس پر مشہور زمانہ امریکی تھنک ٹینک بروکنگ انسٹیوٹ کے ’’مارچ، اپریل2002ء کے شمارہ میں مائیکل اوہانلو کی ’’ فلاڈماسٹرپیس‘‘ رپورٹس پڑھ لیں توتاریخ عالم کی تمام سفاکیوں کوبھول جائیں گے کہ کس طرح امریکا کی 38ہزارجنگی پروازوں میں 22ہزار خطرناک بم برسائے جن میں12500 گائیڈڈبم تھے جن کوعرف عام میں منی ایٹم بم کانام دیاجاتاہے۔علاوہ ازیں انسانی حقوق کے ان چیمپئنز کی بمباری سے اسکولز، اسپتال ودیگرشہری اورسول ٹھکانے بھی محفوظ نہ رہے۔ کابل سے لے کرپاکستانی سرحدوں تک خون کاایسادریاتھاجہاں معصوم اورعام شہریوں کی اموات کی تعدادسے کسی مغربی میڈیاکوبھی کوئی غرض نہیں تھی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی افغانستان میں مغربی میڈیاکی منافقت ودہرامعیارمیں کوئی واضح فرق نہیں آیا۔
آپ پسند کریں یانہ کریں مگرطالبان کواپنی 20سالہ جہادکے ثمرات کی فصل پہلے سے کہیں زیادہ بہتروصول ہوئی ہے اور انہوں نے اب تک اپنے قول وفعل اور تجربے سے بہت کچھ سیکھتے ہوئے امریکاکی ان تمام سازشوں پرپانی پھیردیاہے جس کی وہ توقع کررہے تھے۔سچ تویہ ہے کہ اشرف غنی مہینوں پہلے ہی طالبان کے ساتھ پرامن نتیجے پرپہنچ سکتاتھا مگر اس نے ہمیشہ یہ خیال کیا کہ امریکااوراس کاپروردہ مودی اس کی پشت پناہی کے لیے موجودرہیں گے، لہٰذا اسے مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں جبکہ خودمودی اور راکاسربراہ طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگتے ہوئے انہیں اپنی وفاداریوں کایقین دلاتے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہندو مکاریوں کے جواب میں بالآخرطالبان کے ترجمان سہیل شاہین کوکشمیریوں پرجاری بھارتی مظالم پربھارت کومتنبہ اوراقوام عالم کومتوجہ کرناپڑا۔
اشرف غنی یہ بھول گیاکہ جمہوریت کانعرہ الاپنے والے امریکاکی طرف سے آمروں کی پشت پناہی کی فہرست اتنی لمبی ہے جن ہیں یورپ اورواشنگٹن میں بیٹھے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے ان کے دوستو ں نے دھوکا دیا۔یوں تواشرف غنی اس لحاظ سے عقل مندنکلا کہ اس نے اپنی افغان سیکورٹی فورسزپربھروسانہ کرتے ہوئے راہ فراراختیارکرلی کیونکہ وہ جانتاتھاکہ امریکا نے جو کروڑوں ڈالر افغانی فوج کوزوال سے بچانے کے لیے مختص کیے وہ پیسے سپاہیوں تک پہنچنے کے بجائے اس مخصوص ٹولے کی جیبوں میں گئے جن میں وہ خودبھی شامل تھا ۔ پچھلے دنوں خوداشرف غنی کی بیٹی نے اس کرپشن کے حوالے سے اپنے باپ کے بارے میں جس نفرت کااظہارکیاہے،وہ بھی چشم فلک نے ملاحظہ کرلیاہے۔اسی لیے اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ افغان سیکورٹی فورس اس سرعت سے رفتارکھوبیٹھی اورکئی فوجی اپنی جانیں بچانے کی خاطربھاگ نکلے توکئی طالبان میں شامل ہو گئے۔اپنے ملک کی خاطرلڑنا الگ بات ہے مگراپنی جان کوان لوگوں کوحاکم بنائے رکھنے کی خاطرخطرے میں ڈالناجو آپ کی قیمتی جانوں کے بدلے اپنی جیبیں بھررہے ہوں،ایسا ہرگزممکن نہیں۔
افغانستان اس بات کی عمدہ مثال ہے کہ جب مغربی مداخلت ناکام ہوتی ہے توکیاہوتاہے۔ان سب باتوں کے با وجودمحض بیٹھے رہنے اور حمایت کرنے کے بجائے اب وقت ہے کہ دیگرممالک افغان شہریوں کی خاطرآگے بڑھیں۔ قطرنے نہایت اہم اورمثبت کرداراداکیا۔گزشتہ سال فروری میں طالبان اورامریکاکے درمیان افغانستان میں قیامِ امن کامعاہدہ قطرکے دارالحکومت دوحہ میں ہوا۔ایک اورباہمی طورپربھروسا مند مسلمان طاقتورملک ترکی ہے،جس نے پہلے ہی لیبیااورشام میں خانہ جنگی رکوانے میں کرداراداکیاہے۔امریکی افواج کے انخلاکے بعد طالبان کی خواہش پرترکی کابل ہوائی اڈے کی نہ صرف سیکورٹی سنبھال رہاہے بلکہ نوجوان پڑھے لکھے افرادکو تکنیکی تربیت بھی دینے کے لیے آمادہ ہے۔
تجزیہ نگاروں کے نزدیک یہ افغانستان کے استحکام کے لیے بہت اہم ہے۔ خاص طورپرطالبان کے لیے مسلم ممالک کی جانب سے افغانستان میں جنگ بندی کے لیے سیاسی حل میں مدد کرنانہایت خوش آئندہوگا۔ آئندہ مہینوں میں ممکنہ طورپرافغانستان میں قیامِ امن اورداخلی استحکام کے لیے فوری طورپرپاکستان کو ذمے دار پڑوسی اور بڑے بھائی کاکرداراداکرتے ہوئے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ دوسرابہت ہی اہم کام افغانستان کے اسکولوں کالجزاور یونیورسٹیزکی بحالی اوروہاں اساتذہ کی تعیناتی کواہم فریضہ سمجھتے ہوئے وہ خلا پوراکرناہوگا جو بھارتی اساتذہ کے فرار کے بعد پیداہوگیاہے اورتیسرابہت ہی اہم کام وادی پنجشیرمیں ہونے والے واقعات میں بھارتی اورغیرملکی سازشوں کے بعدافغانستان میں ایران کی طرف سے پٹرول فراہمی میں سستی کونہ صرف خوش اسلوبی سے دورکرناہوگابلکہ روس اوردیگرپڑوسی ریاستوں سے پٹرول کی ترسیل کومزیدآسان بناناہوگا۔
اگرایساہوگیاتویہ یقیناًنہ صرف ایک کامیاب نمونہ ہوگابلکہ دیگرمتاثرہ مسلم ممالک کے لیے بشمول لیبیا،شام اوریمن بلکہ مغربی سہارا،مراکش اورالجیریا کے لیے بھی ایک جانفزاجھونکاہوگا ۔ کم ازکم مغرب کواب اس سے باہررہناچاہیے کہ اس کی نوجوان نسل کاحق ہے کہ وہ مزیدکسی تباہی سے محفوظ رہنے کے لیے جیواورجینے دوکے اصول پرامن وآشتی کی زندگی بسرکرسکیں وگرنہ تاریخ نے اپنے نہایت خوفناک سبق پرایک مرتبہ پھرمہرثبت کردی ہے کہ افغانستان اب بھی عالمی طاقتوں کاقبرستان کے نام سے پہچانااورجاناجاتاہے۔