تعلیم پیشہ بن چکی ،کسی حکومت اور حکمران نے توجہ نہیں دی

315

کراچی (رپورٹ:حماد حسین) کسی بھی حکومت کی ترجیحات میںتعلیم کبھی شامل نہیں رہی اگر تعلیم ہماری قومی ترجیحات میں شامل ہوتی تو ہم جی ڈی پی کا 4 فیصد تعلیم کے لیے مقرر نہ کرتے تعلیم کو ہم نے قومی سطح پر اگر بالکل ہی نظرانداز نہیں کیا ہے تو کم ازکم اس کو وہ اہمیت نہیں دی جس کی یہ مستحق تھی۔ تاجرانہ سوچ کے سبب ہر قسم کی تعلیم اب ہمارے معاشرے اور ہمارے ملک میں ایک “پیشہ”بن چکی ہے جس میں مجموعی فائدے کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ میرا فائدہ کتنا ہے۔طبقاتی تعلیم کو بہت زیادہ فروغ دینے کی وجہ سے تعلیمی ابتری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ان خیالات کا اظہار جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ تعلیم کی پروفیسر ڈاکٹر حمیدہ ظفر،بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کے شعبہ تعلیم کی انچارج اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صائمہ محمود،وفاقی اردو یونیورسٹی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ تعلیم اساتذہ میںکئی برسوں سے بطور استاد خدمات انجام دینے والی ماہ پارہ کمال اورآل پاکستان پرائیوٹ اسکول اینڈ کالج ایسوسی ایشن کے چیئرمین حیدر علی نے ایک سوال طلبہ کی تعلیم و تربیت میں ناکامی کے اسباب کیا ہیں کا جواب دیتے ہوئے کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر حمیدہ ظفر کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں آج کل بچوں کی نفسیات کے حوالے سے باقاعدہ تربیت دی نہیں جاتی بلکہ صرف ڈگری دیکھ کر داخلہ دیا جاتا ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ضروری ہے کہ ہم بچوں کی نفسیات سے واقف ہوں۔ بچوں کواپنے ساتھ مانوس کے لیے ضروری ہے کہ ہم بچوں کے مشفقانہ رویہ اختیار کریں۔ طلبہ کی تعلیم و تربیت میں ناکامی کی کئی وجوہات ہیں جن میںان کی حوصلہ افزاء نہیں کی جاتی‘ انہیں یہ بتانا چاہیے کہ ان کے اندر بہت سی صلاحتیں چھپی ہیں‘ان میں خود اعتمادی ابھارنی چاہیے۔انہیں چھوٹی چھوٹی غلطیوں پہ ٹوکا جاتا ہے۔ جس کی بدولت وہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں‘ ان کی پختہ سوچ بن جاتی ہے کہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں کچھ نہ کچھ غلط کر دیتے ہیں‘بچوں کو ان کی غلطیاں سدھارنے کے طریقے بتانے چاہییں تاکہ وہ زندگی کے کسی بھی میدان میں ناکام نہ ہو سکے‘ اچھے کام پر حوصلہ افزائی کرنے سے بھی نتائج بہتر بنائے جاسکتے ہیں۔بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کے شعبہ تعلیم کی انچارج اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صائمہ محمودکا کہنا تھا کہ اچھی تعلیم وتربیت حاصل کرنا ہر انسان کا حق ہے اس کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ اصل میں تعلیم وتربیت ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ تعلیم تربیت اور تربیت کے بغیر تعلیم کاکوئی فائدہ نہیں۔ انتہائی افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑرہی ہے کہ ہم اپنے طلبہ کی تعلیم وتربیت بہتر انداز میں نہیں کرپارہے ہیں۔ اس کے بہت سے اسباب ہیں سب سے پہلے تو اساتذہ اور والدین میں رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے‘ تربیت میں گھر کا ماحول بہت معنی رکھتا ہے‘ بطور والدین اور استاد ہمیں بچوں کے دوستوں کا پتا نہیں ہوتا کہ ‘ ہم بچوں کو اعلیٰ اخلاق وعادات ،شفقت ورحمت اور خبر گیری جیسی خصوصیات فراہم کرنے میں بھی ناکام ہیں۔ جس کا اثر ان کی زندگیوں پر پڑ رہا ہے۔ رہی سہی کسر انٹرنیٹ اورموبائل فون کے بے جا اور غلط استعمال نے پوری کردی ہے۔ حدیث نبوی ہے کہ ’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم سے تمہاری تربیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔(صحیح بخاری ومسلمم) یعنی ہر ایک سے اس کے ماتحت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ وفاقی اردو یونیورسٹی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ تعلیم میںکئی برسوں سے وابستہ بطور استاد خدمات انجام دینے والی ماہ پارہ کمال کا کہنا تھا کہ تعلیم کے زیور سے خود کو آراستہ کرنا ایک انسان کا فطری تقاضا ہوتا ہے ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ تعلیم یافتہ کہلائیں اور وہ اس خواہش کی تکمیل اور تشکیل کے لیے ساری زندگی جدوجہد کرتا رہتا ہے مگر بانظر غائر دیکھا جائے تو ہمیں صورتحال اس کے بالکل برعکس نظر آتی ہے بقول شاعر” خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے” ہماری تاجرانہ سوچ کے سبب ہر قسم کی تعلیم اب ہمارے معاشرے اور ہمارے ملک میں ایک “پیشہ”بن چکی ہے جس میں مجموعی فائدے کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ میرا فائدہ کتنا ہے تعلیم کی موجودہ پوری فلاسفی ذاتی مفادات کے دائرے میں گھومتی ہے اور صرف اور صرف یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ میرا فائدہ کتنا ہے اسی حوالے سے ہمارے پالیسی ساز بھی اسی ذہنیت کے مالک ہیں اور ایسی پالیسی بناتے ہیں جو صرف اور صرف تاجرانہ سوچ کے حامل افراد کو تعلیم کے ذریعے فائدہ پہنچایا جاسکے تعلیم و تربیت کے حوالے سے معاشی حالات سے بھی چشم پوشی کی گنجائش نہیں ہے یہ وہ عنصر ہے جس کے سبب بڑی بڑی مملکت اپنے وجود سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں اور تاریخ کے اوراق پر گمشدہ گرد راہ کی مانند غائب ہوچکی ہیں وہ ممالک جو معاشی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں وہ تعلیمی لحاظ سے بھی کمزور ہوتے ہیں جو اقوام تعلیم کے لحاظ سے پیچھے رہ جاتی ہیں پھر وہ زندگی کے ہر شعبے میں پسماندہ ہی رہ جاتی ہیں ہماری تعلیمی لحاظ سے ناکامی کے اسباب اس بات میں مضمر ہیں کہ تعلیم ہماری ترجیحات میں ہی شامل نہیں اگر تعلیم ہماری قومی ترجیحات میں شامل ہوتی تو ہم جی ڈی پی کا چار فیصد تعلیم کے لیے مقرر نہ کرتے تعلیم کو ہم نے قومی سطح پر اگر بالکل ہی نظرانداز نہیں کیا ہے تو کم ازکم اس کو وہ اہمیت نہیں دی جس کی یہ مستحق تھی تعلیمی ترقی کے لحاظ سے ہم ایک پسماندہ ترین قوم ہے ہمیں شاید یہ بات گوارا نہ ہو مگر زمینی حقائق اس طرف ہی اشارہ کر رہے ہیں۔آل پاکستان پرائیوٹ اسکول اینڈ کالج ایسوسی ایشن کے چیرمین حیدر علی کا کہنا تھا کہ طلبہکیتعلیم و تربیت میں ناکامی کے اسباب کئی ہے جن میں۔ تعلیم و تربیت کے مفہوم و معنی کو محدود کر کے اس کو صرف معلومات کے ذخیرہ سمجھا جانے لگا ۔تعلیم برائے روزگار کے رجحان نے تعلیمی عمل سے انسانی خوبیوںکو بہت پیچھے دھکیل دیا ۔قومی سطح پر مستقل اور ترجیحی پالیسی کآ فقدان تعلیمی پسماندگی کی بڑی وجہ ہے۔ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق مناسب وسائل مختص نہ ہونا تعلیمی پستی کا بڑا سبب ہے ۔ تمام اطراف سے طبقاتی تعلیم کو بہت زیادہ فروغ دینے کی وجہ سے تعلیمی ابتری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔