پاکستان پر شرائط کی جکڑ بندیاں

552

پاکستان اپنی معاشی حالات کو سدھارنے کے لیے مالیاتی اداروں یا دوست ممالک سے جو قرض لے رہا ہے ان کی شرائط اتنی سخت ہیں کہ ان کو پورا کرنے میں سانس پھولتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ قرضوں کی معیشت کا حال ایسا ہی ہے جیسے کسی کو شوگر کا مرض ہو جائے۔ اگر کسی شوگر کے مریض کی شوگر بڑھ جائے تو اس کی تشویش بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ بڑھی ہوئی شوگر اگر دل پر حملہ آور ہو تو ہارٹ اٹیک کا خطرہ رہتا ہے اور یہ دماغ پر حملہ کرے تو برین ہمریج کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے اگر یہ گردوں پر اثر انداز ہو تو گردے فیل ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ایسی صورتحال میں مریض موت کے قریب پہنچ جاتا ہے اگر یہ آنکھوں پر اثر انداز ہو تو بینائی جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ لیکن اگر کسی مریض کی شوگر اچانک کم ہو جائے تو بھی اس کی جان کے لالے پڑجاتے ہیں کہ جسم میں شوگر کی کمی سے مریض بے ہوش ہو جاتا ہے اسے فوراً تھوڑی سی شکر یا کوئی میٹھی چیز کھلائی جاتی ہے تاکہ وہ ہوش میں آجائے۔ اسی لیے شوگر کے اسپتالوں میں مریضوں کو شکر کے چھوٹے پیکٹ جیب میں رکھنے کے لیے دیے جاتے ہیں اور ساتھ ایک تحریر ہوتی ہے کہ یہ صاحب اگر کہیں بے ہوش ہو جائیں تو انہیں تھوڑی شکر کھلا دیں تاکہ یہ ہوش میں آجائیں۔
پاکستان جیسے قرضوں کی معیشت والے ممالک کی حالت بھی شوگر کے مریض کی طرح ہوتی ہے کہ اگر ان کے اوپر قرضے بڑھتے چلے جارہے ہوں تو وہ بھی ان کے لیے خطرناک ہے کہ ان کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ قرض اور سود کی ادائیگی میں نکل جاتا ہے جیسا کے پاکستان کے بجٹ کا پچاس فی صدی سے زیادہ قرض اور سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں ملک کے ترقیاتی کام رک جاتے ہیں ان ترقیاتی کاموں کو مکمل کرنے اور قرض و سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے لیکن اگر کسی وجہ سے یہ قرض نہ ملے تو ملک کی معاشی حالت دگرگوں ہونے لگتی ہے مریض بے ہوش ہونے کے قریب ہوتا ہے تو قرض کی شکر اسے چٹا دی جاتی ہے اور پھر سخت شرائط نافذ کردی جاتی ہیں جس طرح بڑھی ہوئی شوگر سے مریض کی جان کو خطرہ رہتا ہے اسی طرح کسی ملک کے قرضے بڑھتے چلے جائیں تو اس کی سالمیت یا ملک کے اہم اثاثے دائو پر لگ جاتے ہیں جیسا کہ پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب اس کے قرضے بہت بڑھ جائیں گے اور یہ ان قرضوں کو ادا نہیں کرسکے گا تو نتیجے کے طور پر یہ ہو سکتا ہے کہ اس کے ایٹم بم کو اقوام متحدہ کی تحویل میں دے دیا جائے یہ ہمارے ملک کے لیے بہت برا دن ہوگا۔
پاکستان نے آئی ایم ایف سے اور سعودی عرب سے قرض لیا ہے ان پر بات کرنے سے پہلے ایف اے ٹی ایف پر بات ہو جائے یہ ایک ادارہ ہے جو امریکا نے 2018 میں قائم کیا اس کا یہ کام ہے کہ جن ممالک نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرض لیا ہوا ہے یہ ادارہ یہ دیکھے کہ قرض کی رقم اس ملک میں کہیں دہشت گردی میں تو استعمال نہیں ہورہی۔ 2018 میں فٹیف نے پاکستان پر 27 سوالات یا اعتراضات اٹھائے تھے ان میں سے پاکستان نے 26 کے جوابات دے دیے اسی لیے پاکستان کو اب تک گرے لسٹ میں رکھا ہوا ہے اس کی آخری شرط یہ کہ اپنے ملک کی معیشت کو دستاویزی بنائیں اس میں وقت لگے گا لیکن یہ ایک اچھی شرط ہے کہ اس سے ملک کی آمدنی میں بے پناہ اضافہ ہوگا فٹیف کا کہنا یہ ہے کہ پہلے آپ رئیل اسٹیٹ کے بزنس کو دستاویزی بنائیں ہمارے یہاں کاروباری شخصیات اور ادارے اس کی شدید مزاحمت کرتے رہے ہیں رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں اربوں روپوں کا زبانی لین دین ہوتا ہے یہی لین دین اگر ڈاکومنٹ ہو جائے تو ملک کو کروڑوں روپے کا فائدہ ہو سکتا ہے، ہمارے ملک میں صرف تنخواہ دار طبقہ تو پابندی سے ٹیکس ادا کرتا ہے جبکہ بڑے بڑے کاروباری حضرات بہت کم ٹیکس دیتے ہیں پاکستان فٹیف کی جب یہ شرائط پوری کردے گا تو اس کے نتیجے میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے معاملات میں آسانی ہو جائے گی۔
آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب تو ہو گئے ہیں لیکن ابھی اس کے بورڈ کی منظوری باقی ہے اس کے بعد بھی یہ قرضہ اس وقت ملے گا جب پاکستان آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دے گا آج ہی اخبار میں خبر ہے کہ پٹرول اور ڈیزل پر لیوی میں چار روپے فی لیٹر کا اضافہ ہوگیا حالانکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں آئی ایم ایف نے وزارت خزانہ کی تجاویز کو مسترد کردیا اور شرح سود میں اضافے اور ڈالر کا مارکیٹ ریٹ مقرر کرنے کہا ہے اس سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا وزارت خزانہ کے ترجمان نے کہا ہے شرائط پوری کرنے سے نہ صرف آئی ایم ایف سے 1.06ارب ڈالر ملیں گے بلکہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے بھی فندز مل سکیں گے، اس میں سب سے بڑی شرائط یہ ہیں کہ حکومت اضافی ٹیکس لگائے گیس کی قیمت میں اضافہ اور اپنے اخراجات میں کٹوتی کرے بحیثیت مجموعی اس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔
ہم بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان کے دو ممالک مخلص دوست ہیں ایک غیر مسلم ملک چین اور دوسرا مسلم ملک سعودی عرب ہے جو ہر مشکل موقعے پر پاکستان کے کام آئے ہیں ہم نے جب یہ سنا اور پڑھا کہ سعودی عرب پاکستان کو تین ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں رکھنے کے لیے دے گا اور ایک ارب سے زائد ڈالر کا تیل سال بھر کے لیے ادھار دے گا تو بڑی خوشی ہوئی کہ چلو اس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کچھ بہتری آئے گی لیکن اس وقت یہ خوشی کچھ کم ہوئی جب یہ خبر پڑھی کہ اس پر چار فی صد کے حساب سے سود بھی ادا کیا جائے گا لیکن یہ خوشی بھی اس وقت غم میں بدل گئی جب یہ خبر پڑھی کہ یہ عنایت اس لیے کی جارہی ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے جو شرائط طے کی ہیں ان کی بروقت ادائیگی ہورہی ہے کہ نہیں اگر کہیں پاکستان ڈیفالٹ ہوگا تو (ہمارا غم اور بڑھ گیا) سعودی عرب یہ معاہدہ ختم کردے گا پھر یہ شدید غم غصے میں تبدیل ہوا جب یہ پڑھا کہ پاکستان کو یہ تین ارب ڈالر 72 گھنٹے میں واپس کرنا ہوگا پھر آگے کی ایک ہولناک خبر پڑھ کر معاً یہ خیال آیا کہ کیا ہمارا برادر اسلامی ملک امریکا کے اشاروں پر کام کررہا ہے اور وہ افسوسناک خبر یہ ہے کہ پاکستان نے اگر تین دن میں تین ارب ڈالر کا قرضہ واپس نہیں کیا تو سعودی عرب کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ دنیا میں کسی بھی جگہ پاکستان کے تین ارب ڈالر کے مساوی اثاثوں پر قبضہ کر سکتا ہے۔کیا ایسے ہی ہوتے ہیں دوست؟