صحافی بازیابی کیس،ہماری آدھی زندگی غیر جمہوری حکومتوں میں گزری ،یہ انہی کا کیا دھرا ہے،اسلام آباد

176

اسلام آ باد(مانیٹرنگ ڈیسک)چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی اور بلاگر مدثر نارو کے لاپتا ہونے سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ ہماری آدھی زندگی غیر جمہوری حکومتوں میں گزری، یہ انہی کا کیا دھرا ہے۔جیو اور ڈان نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق صحافی اور بلاگر مدثر نارو کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت گزشتہ روزاسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ہوئی ۔وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری اور سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر عدالت میں پیش ہوئے جب کہ درخواست گزار کی جانب سے عثمان وڑائچ ایڈووکیٹ پیش ہوئے تاہم ایمان مزاری بیماری کے باعث پیش نہ ہو سکیں۔ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے وفاقی وزیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شیریں مزاری صاحبہ آپ کو اس لیے زحمت دی کہ ریاست نظر نہیں آ رہی، ملک میں جبری گمشدگیوں کا رجحان ہے، کسی کا لاپتا ہو جانا انسانیت کے خلاف جرم ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم اور کابینہ ارکان لوگوں کی خدمت کے لیے ہیں،لاپتا شخص کی بازیابی کے لیے ریاست کا ردعمل غیر موثر ہے ، ریاست ماں جیسی ہوتی ہے مگر وہ کہیں نظر نہیں آرہی،کوئی بھی متاثرہ شخص آئے کہ اس کا کوئی عزیز لاپتا ہو گیا ہے تو یہ ریاست کی ناکامی ہے۔وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کہا کہ آپ نے پہلے بھی قیدیوں کے معاملے پر بلوایا تھا، جبری گمشدگیوں کا معاملہ ہمارے منشور میں تھا، ہم نے اس بارے میں قانون سازی کی ہے، سینیٹ میں جلد بھجوائی جائے گی، وزیراعظم بننے سے پہلے بھی عمران خان کا اس معاملے پر واضح مؤقف رہا۔چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ ریاست کی طرف سے کسی کو اغوا کرنا انتہائی سنگین جرم ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کسی پبلک آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو ریاست کا ردعمل کیا ہو گا؟ پبلک آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو پوری مشینری حرکت میں آ جائے گی،ریاست کا ردعمل عام شہری کے غائب ہونے پر بھی یہی ہونا چاہیے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ لاپتا شخص کی اہلیہ بھی چل بسی ہے، تمام ایجنسیاں وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ یہ سمریوں یا رپورٹس کی بات نہیں، لاپتا شخص کے بچے اور والدین کو مطمئن کریں، ریاست کی ذمے داری ہے کہ بچے کی دیکھ بھال کرے اور متاثرہ فیملی کو سنے۔شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ بیان حلفی ابھی تک نہیں ملا، اس کے مطابق اخراجات کی ادائیگی کے لیے کام کریں گے ۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ہدایت کی کہ متاثرہ فیملی کو وزیراعظم کے پاس لے کر جائیں اور کابینہ ارکان سے ان کی ملاقات کرائیں۔جس پر شیریں مزاری نے کہا کہ وزیراعظم انہیں ضرور سنیں گے،ہم چاہتے ہیں پہلے ان کے لیے اخراجات کی ادائیگی پر کام کر لیں۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ لاپتا شخص کے کمسن بچے اور دادی کی وزیراعظم سے ملاقات کرائی جائے گی، اس سے پہلے آئندہ ہفتے تک ان کے لیے رقم کی ادائیگی کا عمل مکمل کرنے دیں ۔شیریں مزاری کا مزید کہنا تھا کہ ہماری حکومت جبری گمشدگی کو سنگین جرم سمجھتی ہے، جمہوریت میں کسی کو لاپتا کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جاسکتی۔عدالت نے وفاقی وزیر سے کہا کہ آپ کوشش کریں کہ یہ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد مطمئن ہو کر واپس آئیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ لاپتا افراد کی ذمے داری تو وزیر اعظم اور کابینہ ارکان پر آتی ہے،ریاست کے بجائے معاوضے کی رقم وزیراعظم اور کابینہ ارکان کیوں نا ادا کریںتاکہ یہ معاملہ ہی ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا عدالت میں کہنا تھا کہ ایک ہفتے کا مزید وقت دے دیں۔جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کیا بات کر رہے ہیں، ایک بندہ 3 سال سے لاپتا ہے اور آپ مزید وقت کا کہہ رہے ہیں۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ کوئی 2002ء میں لاپتا ہوا تواس وقت کے چیف ایگزیکٹو کو ذمے دار ٹھہرا کر ازالے کی ادائیگی کا کیوں نا کہا جائے؟ان کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیوں میں صرف اسٹیٹ نہیں نان اسٹیٹ ایکٹرز بھی آتے ہیں، کسی نا کسی کو تو اس کا ذمے دار ٹھہرانا چاہیے، اگر کوئی ایک شخص لاپتا ہو جائے تو اس کا پورا خاندان مشکلات برداشت کرتا ہے۔وفاقی وزیر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ آپ کی بات سے اتفاق ہے کہ تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں،ریاست کا ردعمل ہر لاپتا شہری کے کیس میں ایک جیسا ہونا چاہیے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ یہ بہت ضروری ہے قانون کی حکمرانی ہو ورنہ اسے نہیں روکا جا سکتا۔ جس پر شیریں مزاری نے کہا کہ سابق حکومتوں نے اس پر کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی،ہم اس پر کام کر رہے ہیں ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ ہماری آدھی زندگی غیر جمہوری حکومتوں میں گزری،یہ ان ہی کا کیا کرایا ہے۔عدالت نے حکومت کو 13 دسمبر تک صحافی اور بلاگر مدثر نارو کی فیملی کو مطمئن کرنے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری سے جواب طلب کر لیا۔