الیکٹرونک یا شیطانی ووٹنگ مشین

567

الیکٹرونک ووٹنگ مشین کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے شیطانی ووٹنگ مشین کا نام دیا ہے شروع میں ہر جدید ایجادات پر اسی طرح کی تنقید ہوتی ہیں برصغیر میں جب لائوڈ اسپیکر پر اذان دینے کا مسئلہ آیا تو علماء کی بہت بڑی تعداد تھی جس نے لائوڈ اسپیکر پر اذان کو ناجائز قرار دیا تھا انہوں نے کہا اس مشین میں شیطان بولتا ہے۔ لیکن اب سب مساجد میں نہ صرف اذانیں دی جاتی ہیں بلکہ جمعہ کی نماز میں خطاب بھی لائوڈ اسپیکر پر ہوتا ہے اور جو لوگ مسلکی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف تقریریں کرتے ہیں، اس طرح سے فساد کا اندیشہ رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت نے یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ صرف اذان اور نماز با جماعت میں لائوڈ اسپیکر کا استعمال کیا جائے جمعہ کے دن کا خطاب اگر بڑی مسجد ہو تو لائوڈ اسپیکر کی آواز کو اتنا رکھا جائے کہ مسجد کے نمازیوں تک آواز پہنچ جائے۔
مجھے یاد ہے ہمارے محلے میں جہاں ہم پہلے رہتے تھے دو مساجد تھیں ایک بریلوی مسلک کی اور دوسری دیوبندی مسلک کی۔بریلوی مسلک کی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھانے اور خطاب کرنے کے لیے جو عالم آتے تھے وہ نابینا تھے لیکن تقریر اچھی کرتے تھے ایک دفعہ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ جب نبی کریمؐ کا نام آئے تو ہمیں درود پڑھنا چاہیے اور اپنی آنکھیں بند کرکے اس پر اپنی انگلیاں پھیرنی چاہییں یہ ادب احترام کا تقاضا ہے اور بعض بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس سے بینائی تیز ہو تی ہے۔ دوسرے جمعے کو دیوبندی مسجد میں عالم صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جب نبی اکرمؐ کا نام آئے تو ہمیں درود پڑھنا چاہیے اس حوالے سے انہوں نے حدیث جبرئیل بھی سنائی انہوں نے کہا کہ درود کے سوا اور کوئی عمل اضافی ہے اور وہ بدعت ہے پھر انہوں نے بریلوی مسجد کے نابینا عالم کی اس بات پر گرفت کی آنکھوں پر انگلیاں پھیرنے سے بینائی تیز ہوتی ہے تو انہوں نے کہا کہ میرا سوال ہے کہ حضرت آپ اب تک نابینا کیوں ہیں، ویسے دونوں عالم اچھی تقریریں کرتے تھے مسلک پر کوئی بات عموماً وہ نہیں کرتے تھے بس کبھی کبھی ہلکی پھلکی نوک جھونک ہوجاتی تھی۔
الیکٹرونک مشین پر حزب اختلاف کے رہنمائوں نے جو تنقید کی ہے اور الیکشن کمیشن نے اپنے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے اس پر بات سے پہلے ہم یہ کہنا چاہیں گے جب کوئی نئی چیز متعارف کرائی جاتی ہے تو وہ ابتدا میں آئیڈیل نہیں ہوتی اس کی خامیاں اور غلطیاں سامنے آتی رہتی ہیں ان کو درست کرنے اور مزید بہتری کے لیے کام ہوتے رہتے ہیں۔ یہ1990سے کچھ پہلے یا بعد کی بات ہے میں ایک ہوٹل میں کسی پروگرام میں شریک تھا اس میں ایک سرمایہ دار جو تقریب کے مہمان خصوصی تھے آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک بڑا سا موبائل فون تھا اور ایک آدمی ہاتھ میں اس کی بیٹری لیے ہوئے چل رہا تھا، جب وہ اسٹیج پر بیٹھے تو ان کے پیچھے ایک چھوٹی میز پر اس فون کی بیٹری رکھی گئی یہ تھی موبائل فون کی ابتداء ہم نے جب شروع میں موبائل لیا تو کنکشن چارجز اخبار والوں کے لیے رعایتاً ایک ہزار روپے اور 8روپے فی منٹ فون کرنے اور 3روپے فی منٹ سننے کے چارجز تھے ماہانہ بل لمبی لائن لگ کر بھرنا پڑتا تھا۔ اور اب کتنی سہولتیں ہیں۔
اسی طرح الیکٹرونک ووٹنگ مشین کی ابھی ابتدا ہے آگے چل کر اس میں جو مسائل و مشکلات سامنے آئیں گی ان کا تدارک بھی ہوتا رہے گا، مشین میں اصلاحات بھی ہوتی رہیں گی ابھی دو سال کا عرصہ باقی ہے پہلے الیکشن کمیشن کے ارکان کو اس کی ٹریننگ دی جائے پھر کچھ آئی ٹی کی شُد بُد رکھنے والوں کا بڑی تعداد میں تقرر کیا جائے اور ان کو اس کی ٹریننگ دی جائے دوران تربیت مشین کے نقائص بھی سامنے آتے رہیں گے تو ساتھ ہی ساتھ مشین دینے والی کمپنیاں ان نقائص کی درستی کا بھی اہتمام کرتی رہیں گی اور ضرورت کے مطابق اس میں مزید ریفارمز بھی ہوتے رہیں گے۔ اب اس میں الیکشن کمیشن کے تحفظات، مخالفین کے اعتراضات، اور کچھ حلقوں کی شکایات پر بات کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ای وی ایم کے استعمال کے لیے 150 ارب سے زائد اخراجات کو فضول کی مشق قرار دیا ہے کہ ایک مشین کا خرچ 2لاکھ روپے ہے اور اس کے لیے دو سے تین لاکھ آئی ٹی ماہرین کی ضرورت پڑے گی۔ الیکشن کمیشن کا کہنا یہ ہے کہ 2023 کے انتخابات میں 8لاکھ مشینوں کی ضرورت پڑے گی مشین کی چپ گم ہو جانے سے نتائج تبدیل ہونے کا خدشہ ہے، مشینوں کو حلقوں تک پہنچانے کے لیے ہیلی کاپٹروں کی ضرورت پڑے گی مشین پر غلط ووٹ کاسٹ ہونے پر دوبارہ ووٹ کاسٹ کرنے کی سہولت نہیں ہوگی مشینوں کو بحفاظت پہنچانا اور واپس لانا بڑا چیلنج ہے EVM حکومت نے خود نہیں بنائی نجی کمپنی سے بنوائی ہے جو دیگر کمپنیوں کی مشینوں سے انتہائی کم محفوظ ہے یہ مشین جدید ٹکنالوجی سے لیس نہیں اس میں ایک لمبے عرصے تک بڑی تعداد میں افراد کو ٹریننگ کی ضرورت پڑے گی ہر پولنگ اسٹیشن پر دو سے تین آئی ٹی کے افراد تعینات کرنے ہوں گے گزشتہ الیکشن میں 86 ہزار پولنگ اسٹیشن بنے تھے آئندہ الیکشن میں ایک لاکھ پولنگ اسٹیشن اور تین لاکھ پولنگ بوتھ بننے کے امکانات ہیں ہر پولنگ بوتھ پر قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے الگ الگ مشینیں رکھنا پڑیں گی کسی حلقے میں اگر 20سے زائد امیدوار ہوں گے تو ایک الگ مشین رکھنا پڑے گی ملک کے تقریباً آدھے حلقوں میں 20سے زائد امیدوار ہو تے ہیں ایسی صورت میں ایک لاکھ مشینیں اضافی خریدنا پڑیں گی کوئی مشین اچانک خراب ہو سکتی ہے اس لیے حفظ ما تقدم کے طور پر ایک لاکھ زائد مشین خریدنا پڑیں گی، کم از کم 8لاکھ EVM مشین خریدنا پڑیں گی ان کی لاگت ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے آئے گی اتنی بڑی تعداد میں مشینوں کو کہاں رکھا جائے گا ڈیٹا سینٹر ہی موجود نہیں، ڈیٹا سینٹر کے قیام اور مشینوں کو سنبھالنے پر اربوں روپے کے اخراجات آئیں گے۔ مشینوں کو مختلف مقامات تک پہنچانے پر ٹرانسپورٹیشن چارجز بھی ہوں گے مشینوں کو بحفاظت لانا لے جانا بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ 2028کے انتخابات میں ٹکنالوجی اور ترقی کر چکی ہو گی اس لیے یہ ساری مشینیں بے کار ہو جائیں گی۔
جب ذہن کسی کام کو نہ کرنے کا ہو تو ایسا ہی مہیب اور خوفناک نقشہ کھینچا جاتا ہے جیسا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن ان اعتراضات کو یکسر نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا اس میں کچھ بڑھ چڑھ کر اعداد شمار پیش کیے گئے ہیں متعلقہ وزراء کا کہنا ہے کہ مشینوں کی خریداری پر 25سے 30ارب روپے اخراجات آئیں گے کہاں 150ارب روپے اور کہاں 30ارب روپے۔ سیاسی جماعتیں تو کہہ رہی ہیں کہ یہ عمران خان کو دوبارہ کامیاب کرانے کے لیے ایک جال پھینکا جارہا ہے جس طرح 2018 کے انتخابات میں آر ٹی ایس کا سسٹم متعارف کرایا گیا تھا پھر اس کا کیا حشر نشر ہوا اس طرح تو عمران خان بھی 2013 کے الیکشن کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ تو آر او کے الیکشن تھے اب ہم آر ٹی ایس اور آر او کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت الیکشن کمیشن کے تحفظات کو سنجیدگی سے دیکھے یہ اچھا ہوا کہ ہمارے ایک اہم اور مرکزی وزیر الیکشن کمیشن سے تحریری معافی مانگ لی ہے اب دونوں طرف سے کھلے دل کیساتھ ای وی ایم کے تحت الیکشن کرانے کے بارے میں افہام و تفہیم سے کام لیا جائے امید ہے وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کرے گی۔