دبئی ایکسپو اور ٹورزم کی معیشت

748

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے جنوب میں ڈیڑھ دو گھنٹے کی ہوائی مسافت پر واقع دبئی میں اس وقت دنیا کا ایک بڑا میگا ایونٹ، دبئی ایکسپو 2020ء کے نام سے جاری ہے جو ٹیکنالوجی اور آرکیٹیکچر کے متنوع اور متاثر کن استعمال کا بہترین نمونہ ہے جہاں تخیل و تخلیق کا حیران کن ملاپ نظر آتا ہے۔ حسن انتظام اپنی آب و تاب سے جلوہ گر ہے۔ صفائی و سیکورٹی اپنے عروج کو پہنچی ہوئی ہے۔ ہر رنگ، نسل و مذہب کے لوگوں کا سمندر رواں دواں ہے۔ اس چمک دمک اور شان و شوکت کے باعث تازہ ترین اطلاعات کے مطابق 42 لاکھ افراد اس کی سیر کرچکے ہیں۔ دبئی ایکسپو جو یکم اکتوبر سے شروع ہوا اور 31 مارچ 2022ء تک جاری رہے گا اس کو اصل میں پچھلے سال منعقد ہونا تھا مگر کورونا کی وبا کے باعث ایک سال آگے کردیا گیا لیکن نام ابھی بھی اس کا ایکسپو 2020 ہے جس میں 191 ممالک شریک ہورہے ہیں، اس کا مرکزی خیال ’’دماغوں کو جوڑنے سے مستقبل تخلیق کیا جائے‘‘ ہے یہاں ہر ملک کو ایک پویلین دیا گیا ہے جس میں وہ اپنے ملک کا تعارف پیش کرتا ہے جس میں وہاں کا کلچر، رسم و رواج، مذاہب، تاریخی عمارتیں، قدرتی وسائل، معیشت و کاروبار، جغرافیہ اور تخلیق و ترقی وغیرہ شامل ہیں۔
ہم نے اپنی سیر کا آغاز پاکستانی پویلین سے کیا جو آرٹ، ٹیکنالوجی اور روشنیوں کا بہترین نمونہ تھا۔ آغاز میں مٹی کے برتن اور دوسری دستکاریوں کو دکھایا گیا تھا۔ اس کے بعد مختلف مذاہب کے مقدس مقامات، مختلف قوموں کی رسوم، گلابی نمک (Pink Salt) کے بڑے بڑے پتھر، ٹیکنالوجی کی مصنوعات، آئی ٹی کے میدانوں میں پاکستان کی ترقی، صنعتی ترقی، اجرک، کھسے اور مٹی کے برتنوں کی تیاری پر پویلین کا اختتام ہورہا تھا۔
دبئی متحدہ عرب امارات (UAE) کی سات ریاستوں میں سے ایک ہے جس کی آبادی ساڑھے تین ملین ہے۔ مجموعی قومی پیداوار کا حجم 102 ارب ڈالر ہے جب کہ فی کس آمدنی (per capita income) چالیس ہزار امریکی ڈالر ہے۔ دبئی کی مجموعی قومی آمدنی (GDP) میں سیروسیاحت کا حصہ 46 فی صد ہے جس کا معیشت کا چلانے میں سب سے اہم کردار ہے اور یہ شعبہ 5 لاکھ ستر ہزار افراد کو ملازمت فراہم کرتا ہے۔ اس طرح تقریباً پچاس فی صد روزگار یہی شعبہ لوگوں کو مہیا کرتا ہے۔
پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کا حجم 280 ارب ڈالر ہے جب کہ فی کس شرح آمدنی 1200 امریکی ڈالر ہے۔ پاکستان میں برف پوش وادیاں اور ہرے بھرے درختوں سے ڈھکے اونچے اونچے پہاڑ ہیں، شمالی علاقہ جات ہیں، دور دور تک پھیلے گھاس کے میدان پہاڑوں کی چٹانوں سے پھوٹتے ہوئے چشمے اور جھرنے، سکون سے بہتے ہوئے شور مچاتے ہوئے دریا، مختلف مذاہب سے منسلکہ تاریخی عمارتیں، مغلیہ دور کے مزارات و باغات، اور سب سے بڑھ کر تقریباً ایک ہزار کلو میٹر لمبا ساحل سمندر، سیروسیاحت کے وسیع امکانات کے باوجود پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں ٹورزم کا حصہ 6 فی صد ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بیرونی سیاحوں کو جو ماحول اور جو سروسز درکار ہیں اور جس کی منہ مانگی قیمت وہ دینے کے لیے تیار ہیں وہ ہم انہیں فراہم نہیں کرتے۔ مثلاً مالم جبہ ہرے بھرے درختوں میں گھرا ہوا ایک خوبصورت پکنک اسپاٹ ہے مگر وہاں صفائی ستھرائی سے محروم صرف دو واش روم ہیں۔ لاہور شہر مغلیہ دور کی تاریخی عمارتوں سے مالا مال ہے مگر ہر جگہ گندگی، بدانتظامی اور غیر مہذب عملہ سے واسطہ پڑتا ہے۔ کالام میں اوستو کے جنگلات سیاحوں سے بے انتہا کشش رکھتے ہیں۔ مثلاً سڑک ٹوٹی ہوئی ہے جہاں صرف جیپ سے سفر کیا جاسکتا ہے۔ سنا ہے جیپ ڈرائیور وہاں سڑک بنوانے نہیں دیتے۔
ہم اس وقت صرف ایک ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط قبول کررہے ہیں۔ پٹرول مہنگا کررہے ہیں، شرح سود میں اضافہ کررہے ہیں، ترقیاتی اور عوامی اخراجات میں کمی کررہے ہیں، بجلی کے نرخ بڑھارہے ہیں۔ اگر شمالی علاقہ جات اور تاریخی عمارتوں کو جدید ترین سہولتوں سے آراستہ کردیا جائے اور مہذب و تعلیم یافتہ عملہ بٹھادیا جائے تو صرف ٹورزم سے پاکستان میں ڈالروں کی ریل پیل ہوسکتی ہے۔