کے الیکٹرک نے تانبا بیچ کر اربوں کھربوں روپے بنائے، چیف جسٹس

510

کراچی: چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک لوگوں کو بلیک میل کرتی ہے اور صرف پیسہ بنا رہی ہے، کےالیکٹرک نے سارے شہر سے کوپر کی تاریں ہٹاکر ایک دن میں بلین ڈالرز کمالیے، کراچی بھر میں اب ایلومینیم کی تاریں لگا دی گئی ہیں جو لوڈ برداشت نہیں کر سکتیں۔

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پی ای سی ایچ ایس میں گرین بیلٹ پر کے الیکٹرک کے گرڈ اسٹیشن کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران عدالت نے کے الیکٹرک کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کے الیکٹرک کو کیا گرڈ اسٹیشن گرین بیلٹ پر ہی بنانا تھا؟، جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے پی ای سی ایچ ایس کے وکیل سے پوچھا کہ کے الیکٹرک نے آپکو بجلی دینی تھی اس لیے جگہ دے دی آپ نے؟، وکیل پی ای سی ایچ ایس نے کہا کہ ہم نے قومی مفاد میں کے الیکٹرک کو نارمل ریٹس پر جگہ دی تھی۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کس بات کا قومی مفاد، کےالیکٹرک کاروبار کر رہا ہے، کونسی عوامی خدمت کر رہا ہے۔محمود آباد میں گرین بیلٹ کی جگہ تھی وہ بھی کے ای ایس سی کو دے دی، کے الیکٹرک تو مہنگی زمین بھی خرید سکتی ہے اسے رفاہی پلاٹ دے دیا۔

وکیل کے الیکٹرک نے کہا کہ آپ کو محمود آباد اور پی ای سی ایچ ایس کے بارے میں اچھی طرح معلوم ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جی ہمیں معلوم ہے ہم سب کرکٹ کھیلتے رہے ہیں وہاں، لیکن گرین بیلٹ پر گرڈ اسٹیشن بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جتنے گرڈ اسٹیشن بنا دیں، پورے شہر میں لوڈ شیڈنگ ہے ، لوگوں کو دو تین گھنٹے ہی بجلی ملتی ہے کیا سروس دے رہے ہیں آپ لوگوں کو ؟ جہاں گرڈ اسٹیشن لگایا ہوا ہے محمود آباد میں کتنی دیر بجلی آتی ہے؟۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیشنل گرڈ سے آپ کا معاہدہ ختم ہوگیا، گیس کے آپ لوگ پیسے نہیں دیتے، لوگوں کو پریشان اور بلیک میل کرتی ہے، یہ نجی ادارہ ہے لوگوں کو ناک کان سے پکڑ کر گھسیٹ رہا ہے، کے الیکٹرک نے معاہدے کے تحت ایک واٹ کا بھی اضافہ نہیں کیا۔

جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ کےالیکٹرک نے سارے شہر سےکوپر کی تاریں ہٹاکر ایک دن میں بلین ڈالرز کمالیے، کراچی بھر میں اب ایلومینیم کی تاریں لگا دی گئی ہیں جو لوڈ برداشت نہیں کر سکتیں، کے الیکٹرک یہاں صرف پیسہ بنا رہی ہے، جو بجلی چوری ہوتی ہے اس کے پیسے بھی دیگر لوگوں سے وصول کرتے ہیں۔