…ملک کیسے چلتے ہیں

516

پاکستانی مشیر خزانہ نے زبردست سوال اچھالا ہے کہ ملک ایسے نہیں چلتے ترسیلات زر کی بنیاد پر ملک کے معاملات زیادہ دن نہیں چل سکتے۔ چلیں حکومت ہی کی جانب سے کسی نے تو یہ اعتراف کیا کہ ملک ایسے نہیں چلتا۔ لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ ملک کیسے چلتا ہے یا کیسے چلایا جائے گا۔ پاکستان میں قائد اعظم، لیاقت علی خان اور ابتدائی دو تین حکومتوں کے بعد سے یہی تجربات ہورہے ہیں کہ ملک کیسے چلتے ہیں۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد سے سیاستدانوں کو بدنام کرنے اور ان کے خلاف اسٹیبلشمنٹ نے اسٹیبلش ہو کر کام شروع کردیا تھا۔ 1958ء میں باقاعدہ مارشل لا لگایا گیا لیکن 11 سالہ فوجی اور فوجی سول دور کے باوجود یہ طے نہیں ہوسکا کہ ملک کو فوج چلا سکتی ہے یا نہیں۔ چناں چہ جمہوریت لانے کا فیصلہ کیا گیا مگر راس نہ آئی ملک ہی توڑ دیا گیا۔ بچے کھچے ملک میں جمہوریت چلانے کی کوشش کی گئی لیکن وڈیرہ ذہنیت نے اقتدار کو بادشاہت بنادیا۔ چند برس بعد پھر سوال پیدا ہوگیا کہ ملک کو سیاستدان تو نہیں چلا سکتے ہم ہی چلائیں گے۔ لیکن 11 سال بعد طیارے کی تباہی کے نتیجے میں یہ فیصلہ ہوا کہ سیاستدانوں کو آگے لایا جائے یا آگے لگایا جائے۔ اور انہیں پھر باریاں دی جانے لگیں تا کہ کوئی سیاستدان کام ہی نہ کرسکے۔ چوں کہ ایک ہی گملے کی پیداوار تھے اس لیے اعتراض تک نہ کرسکے کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے بلکہ انہوں نے اس نظام سے سمجھوتا کرلیا تھا کہ اچانک ایک اور کھلاڑی کو میدان میں اُتار دیا گیا، اس پر پچھلے مہرے ذرا ہل گئے۔ بس اس سے زیادہ ان میں طاقت نہیں تھی۔ لیکن ساڑھے تین سال میں نئے مہرے کو بھی پتا نہیں چلا کہ ملک کیسے چلایا جاتا ہے۔ درمیان میں ایک کمانڈو آیا تھا کہ میں ملک چلائوں گا لیکن وہ تو کسی توپ کے بجائے فون کال ہی پر ڈھیر ہوگیا۔ جنرل پرویز 8 سال ملک پر مسلط رہے لیکن طے نہ ہوسکا کہ ملک کیسے چلایا جاتا ہے۔
آج کل جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ بالکل نیا نہیں ہے بلکہ 70 برس سے پاکستان میں جو تجربات ہورہے ہیں یہ ان ہی کا تسلسل ہے لیکن اب تو لگتا ہے کہ یہ تجربات نہیں ہیں بلکہ پاکستان 70 برس سے پاکستانیوں کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے، ایجی سن کے پڑھے ہوئے، بہترین تعلیم حاصل کرنے والے سیاستدان اور جرنیل ملک چلانے میں کیوں ناکام رہے۔ یہ سب ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھیراتے ہیں لیکن مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ برآمد ہورہا ہے کہ ملک میں ہر طرح کا نظام (اسے نظام کہا نہیں جاسکتا) آزمایا جاچکا ہے لیکن ملک ترقی اور خوشحالی دیکھنے سے قاصر ہے۔ اس کا سبب کیا ہے؟ اس کا ایک ہی سبب ہے کہ ملک جس چیز کے نام پر قائم کیا گیا تھا اسے اس سے ہی دور رکھا گیا۔ اس بات پر کوئی اختلاف نہیں صرف کچھ لوگوں کو تکلیف ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ اور 74 برس میں پاکستان کو اسی نظام سے محروم رکھا گیا ہے۔ ساری دنیا کے گُر آزمائے جاچکے لیکن ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی طرف سنجیدہ کیا غیر سنجیدہ نمائشی کوشش بھی نہیں کی جاتی کہ کہیں اس سے کوئی راستہ نہ نکل آئے اور ملک کے لوگ اسلام نافذ کرنے کا مطالبہ کرنے لگیں۔ ملک کیوں نہیں چلتا، یا ٹھیک کیوں نہیں ہوتا۔ اس کا سبب صرف ایک ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا اس میں آنے والے اس کے لیے قربانیاں دینے والے اس کے لیے اپنا سب کچھ لٹانے والے صرف اسلام کی خاطر یہ سب کچھ کررہے تھے۔ لیکن اس ملک کو اسلام کے مطابق چلانے کے سوا سارے کام کیے گئے۔ جنرل ضیا نے نظام مصطفی کا نعرہ اپنے اقتدار کے لیے استعمال کیا۔ اور اب عمران خان نے ریاست مدینہ کا نعرہ اپنے اقتدار کے لیے استعمال کیا۔ دونوں نے اپنے دعوئوں کو غلط ثابت کردیا۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں تو کچھ ایسے اقدامات کیے گئے جن کی وجہ سے اسلام کی جانب سے پیش رفت نظر آئی۔ انہوں نے جنرل ایوب کے دور کی اسلامی نظریاتی کونسل کو فعال کیا اور اس کو اہم کردار دیا۔ اسی طرح انہوں نے وفاقی شریعت عدالت قائم کی۔ فوج میں امام اور خطیب کا تقرر کیا، آئین میں اسلامی شقوں کو شامل کیا، اس کے نتیجے میں جنرل پرویز اور اسلام بیزار لوگوں کو یہ سارے کام ختم کرنے میں مشکلات ہوئیں۔ لیکن عمران خان کی جانب سے تو ریاست مدینہ کا صرف نام لیا گیا باقی سارے کام انہوں نے اس کے خلاف ہی کیے ہیں۔ خصوصاً مدینے کا نام لے کر ختم نبوت کے خلاف ان ہی کے دور میں بے تحاشا سازشیں ہوئیں، قادیانیت نوازی میں ان کی حکومت کا نام آتا رہا ہے، قادیانیوں کو سہولتیں دینے کا کارنامہ بھی اسی حکومت کا ہے۔
سود کی حرمت اور اس کے اعلان کے بعد لین دین کرنے والوں کے بارے میں قرآن نے جو وعید جاری کی ہے اس کے باوجود میاں نواز شریف، پیپلز پارٹی اور عمران خان سود سے چمٹے ہوئے ہیں اور آئی ایم ایف کے در پر جھولی پھیلائے کھڑے ہیں۔ یہ بات وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ اور رسولؐ سے جنگ کا نتیجہ کیا ہوگا۔ لیکن وہ اس کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ اسی لیے وفاقی شریعت عدالت نے سوال بھی اٹھایا ہے کہ ریاست شریعت کے مطابق قانون سازی سے کیوں ہچکچا رہی ہے۔ انہوں نے جو سوالات اٹھائے ہیں ان کی اہمیت بھی پارلیمنٹ میں 33 بلوں کی ایک دن منظوری کے بعد کم ہوگئی ہے بلکہ بعض سوالات تو غیر موثر ہو کر رہ جائیں گے۔ مثال کے طور پر بلاسود بینکاری کے لیے کام میں اسٹیٹ بینک تاخیری حربے کیوں استعمال کررہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے بعد عدالت بھی نہیں پوچھ سکے گی کہ وہ کیا کررہا ہے اور پارلیمنٹ بھی۔ شریعت عدالت میں ہونے والی بحث بتارہی ہے کہ اللہ اور رسولؐ سے جنگ کرنے والوں کی مت ماری گئی ہے۔ وہ اب تک کفار قریش کی طرح کی باتیں کررہے ہیں۔ اٹارنی جنرل کہتے ہیں کہ ربا کو غیر قانونی قرار دینے کا اختیار حکومت کا ہے۔ اس پر انہیں استغفار پڑھنا چاہیے، ایمان کی تجدید کرنی چاہیے اور اللہ سے معافی مانگنی چاہیے۔ ربا کو تو اللہ نے نہایت واضح الفاظ میں غیر شرعی قرار دیا ہے۔ پھر یہ کہاں بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ اس لیے ان کے ذہن میں ایسے سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ ملک کیسے چلائے جاتے ہیں۔ یہ دیوار سے سر پھوڑ لیں ان کو پتا ہی نہیں چلے گا کہ ملک کیسے چلائے جاتے ہیں۔