واہ واہ آرڈیننس فیکٹری

694

1983ء میں جب ہم نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا تو واہ آرڈیننس فیکٹری کی ایک خبر کا ترجمہ کیا اور آرڈننس کو آرڈی ننس لکھا۔ استاد بلکہ اساتذۂ کرام اطہر ہاشمی اور آفتاب سید نے بیک وقت گرفت کرلی۔ ہاشمی صاحب نے تو کہا۔ واہ واہ آرڈی ننس فیکٹری… یہ کیا ہے میاں؟؟ ابھی جواب ہی نہیں دے پائے تھے کہ آفتاب صاحب نے کہا کہ ارے کئی مرتبہ بتا چکا ہوں یہ آرڈننس (Ordnance)ہے۔ کراچی میں بھی آرڈننس ڈپو دیکھا ہوگا۔ آرڈی ننس تو وہ ہوتا ہے جو صدر مملکت جاری کرتا ہے۔ وقت گزر گیا اس زمانے میں آرڈننس فیکٹری اسلحہ تیار کرتی تھی اب توسینی ٹائزر اور ماسک بھی بنانے لگی۔ جنگ تو یہ بھی تھی صدر مملکت چونکہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی تھے اس لیے وہ مارشل لا آرڈر جاری کرتے تھے۔ بعد میں پارلیمنٹ بنائی اور صدر بنے لیکن انہیں بار بار آرڈیننس جاری کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ مزید وقت گزر گیا ہے اب تو لگتا ہے کہ ایوان صدر واہ آرڈننس فیکٹری سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اسے واہ واہ آرڈیننس فیکٹری ہی کہا جاسکتا ہے۔ 25 روز میں نیب آرڈی نینس میں تیسری ترمیم اور صدارتی آرڈیننسوں کی بیساکھی پر حکومت چلائی جارہی ہے۔ جنرل ضیا الحق نے آئینی ترامیم اس طرح کی تھیں کہ ترامیم میں جنرل ضیا الحق کا نام تھا۔ ریفرنڈم بھی اسی کمال کا تھا کہ اگر آپ اس ملک میں نظام مصطفی چاہتے ہیں تو میں جنرل محمد ضیا الحق پانچ سال کے لیے صدر… یہ کہتے ہوئے جنرل صاحب نے پانچوں انگلیوں کو کھول کر ٹی وی پر قوم کو دکھائی بھی تھیں۔
ہمارے دانتوں کے ماہر صدر جناب ڈاکٹر عارف علوی صاحب دانتوں کی ترتیب بیماریوں، صفائی، احتیاط، وغیرہ کے ماہر بھی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کے دانت نکال کر رکھ دیتے ہیں۔ اس ملک کے عوام کی قسمت سے وہ صدر بن گئے ہیں، ان کو حکومت نے ذمے داری دی ہے کہ تمام ایسے ادارے جو حکومت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ان کے دانت توڑ دیے جائیں۔ یہ اصطلاح شہید صلاح الدین صاحب استعمال کیا کرتے تھے۔ جب 1985ء کے زمانے میں شیعہ سنی جھگڑوں کی خبر آتی تھی تو وہ دونوں فریقوں کی خبریں لگانے کی ہدایت کرتے لیکن نیوز ڈیسک پر آکر کہتے کہ بھائی ذرا خبر کے دانت توڑ دیجیے گا۔ یعنی ایسا کوئی جملہ نہ چلا جائے جس کے نتیجے میں فساد ہوجائے یا اختلافات لڑائی جھگڑے میں بدل جائیں۔ ایسا لگتا ہے کہ علوی صاحب بھی آج کل ایسے ہر ادارے کے دانت توڑنے میں مصروف ہیں جو عمران خان صاحب کو نقصان پہنچا سکتا ہو۔ تازہ شکار تو نیب چیئرمین کے اختیارات محدود کرکے انہیں کرلیا گیا۔ نیب کے چیئرمین کو نکالنے کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل سے واپس لے کر صدر مملکت کو دے دیا گیا اور صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس (ہدایت) پر جب چاہیں گے کسی بھی نیب چیئرمین کو چلتا کردیں گے۔ یہ صورت حال وہی ہے جس سے ہر حکمران کسی نہ کسی وقت گزرتا ہے۔ وہ یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اسے ہمیشہ حکمران رہنا ہے، اس لیے یہ قانون میرے کام آتا رہے گا لیکن یہ تو سب کو پتا ہے (سوائے حکمرانوں کے) کہ کس کی بنی ہے اس عالم ناپائیدار میں۔ اچانک حکومت ختم ہوجاتی ہے۔ حکومت آرڈیننس پر چلائی جاتی ہے اور آرڈننس ڈپو اور فیکٹری والے ایک آرڈر نکال کر حکومت کو نکال باہر کرتے ہیں کبھی اپنی ہی پارٹی کے صدر کے ہاتھوں کبھی عوامی احتجاج سے۔ جس کے نمونے بھی حال ہی میں دکھائے گئے ہیں اور کبھی یوں ہی عدالتی حکم پر… پھر اپوزیشن میں آکر وہی حکمران اداروں کو اختیار دینے کا مطالبہ کررہا ہوتا ہے۔ ووٹ کو بے توقیر کرنے والے نواز شریف ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
آرڈیننسوں پر حکمرانی کرنے کا کام صرف فوجیوں نے نہیں کیا وہ تو مارشل لا آرڈر جاری کرتے تھے سول اور جمہوری حکمران آرڈی ننس کا سہارا لیتے ہیں اس میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، (ق) لیگ وغیرہ کسی کی تخصیص نہیں۔ سب اس میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ تازہ ترین
حملہ نیب پر کیا گیا ہے۔ لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں الیکشن کمیشن نشانہ بنے گا۔ اس سے وزرا کو دیے گئے نوٹس بھی واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اگر عدالت عظمیٰ یا کسی صوبائی عدالت نے حکومت کی مرضی کے خلاف خلاف فیصلے دیے تو یہ حکومت ان ہی کے پیچھے پڑ جائے گی۔ جیسا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کے بارے میں باقاعدہ مہم چلائی گئی کہ سب نواز شریف کے بھرتی کیے ہوئے ہیں۔ حالاں کہ عدلیہ بھی اسی طرح کا ایک ادارہ ہے جس قسم کے دوسرے ادارے ہوتے ہیں۔ فوج کے پاس بہت زیادہ طاقت ہے لیکن عدلیہ بھی آئینی اختیارات کے ذریعے بہت کچھ کردیتی ہے۔ بیورو کریسی ایسا ادارہ ہے جس کو اب تک سیاستدان نہیں سمجھ سکے ہیں، انہیں صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جو بیوروکریسی بنانے والے انگریز کے نظام کے مطابق کام کرتے ہیں، اس لیے ان دونوں کا نقصان نہیں ہوتا۔ یہ دونوں ادارے سیاستدانوں، پارلیمنٹ اور حکومتوں کے دانت توڑتے رہتے ہیں۔ انہیں ملا کر اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے۔ یہ کھیل برسوں سے جاری ہے۔ جتنے بھی واہ واہ آرڈیننس فیکٹری والے صدور یا وزرائے اعظم تھے آج وہ اقتدار میں یا دنیا میں نہیں ہیں لیکن اقتدار سے نکلنے کے بعد ہی انہیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ فلاں آرڈیننس غلط ہے۔ فلاں قانون غلط ہے۔ جیسے پی ڈی ایم اور پی پی پی آج کل اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے مخالف ہیں لیکن عمران خان نہیں ہیں۔ کل کیا ہوگا اس کا انحصار اسٹیبلشمنٹ سے سیٹنگ پر ہے۔