اسرائیل مشرق وسطیٰ میں سفارتی جنگ جیت رہا ہے؟

962

اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں سفارتی جنگ میں پہلی کامیابی 2020 میں حاصل ہوئی تھی جب چار عرب ممالک، مراکش، بحرین، سوڈان اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کر کے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کیے تھے۔ بلا شبہ یہ کامیابی امریکا کی کاوشوں کے بل بوتے پر حاصل ہوئی تھی جس کے طفیل اسرائیل پر دوسرے عرب ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کے راستے کھل گئے۔ امریکا کے نزدیک بحرین کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عمل بہت اہم تھا کیونکہ بحرین سے سعودی عرب کے بڑے گہرے تعلقات ہیں اور عام خیال ہے کہ بحرین کے فرماں روا حماد بن عیسیٰ بن الخلیفہ سعودی عرب کی مرضی اور منظوری کے بغیر کوئی اہم فیصلہ نہیں کر تے۔ اب تک عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے یہ شرط عاید کی جاتی تھی کہ اسرائیل، فلسطین کے وجود کو تسلیم کرے اور اسے ایک علٰیحدہ ریاست کا درجہ دے۔ لیکن ان عرب ملکوں نے جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا انہوں نے اس شرط کا لحاظ نہیں کیا بلکہ امریکا کے دبائو کے تحت انہوں نے سر تسلیم خم کردیا۔ امریکا کی کوشش تھی کہ سعودی عرب کے ذریعے عرب ممالک خاص طور پر خلیج کی ریاستوں پر دبائو ڈالا جائے اور ان سے اسرائیل کو تسلیم کرایا جائے۔ لیکن امریکا کو اس سلسلے میں کوئی زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
بہر حال اسرائیل کو اس سفارتی جنگ میں حال میں ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے جسے تاریخی کامیابی قرار دیا جارہا ہے جب متحدہ عرب امارات کی فضائیہ کے سربراہ میجر جنرل ابراہیم العلوی نے اسرائیل کا پہلا سرکاری دورہ کیا اور وسطی اسرائیل میں بلیو فلیگ فضائی مشقیں دیکھیں۔ اس موقع پر میجر جنرل ابراہیم نے اسرائیل کی فضائیہ کے سربراہ نورکن کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون کے امکانات کا جائزہ لیا۔ جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے سعودی عرب نے ابھی تک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے لیکن مبصرین کے نزدیک یہ بات اہم ہے کہ سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ براہ راست پروازوں کی اجازت دی ہے اور گزشتہ ماہ اسرائیل کی کمرشل پروازیں سعودی عرب میں اترنی شروع ہو گئی ہیں یہ اقدام عملی طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ مبصرین کے نزدیک سعودی عرب کا یہ رویہ اسرائیل کے لیے ایک بڑی فصیل کو عبور کرنے کے مساوی ہے۔ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ امریکا نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا اس پر سعودی عرب نے اتنی شدت سے مخالفت نہیں کی جتنی کہ توقع تھی۔
اسرائیل کی ایک اور سفارتی جیت یہ تصور کی جارہی ہے کہ متحدہ عرب امارات اور مراکش نے دسمبر میں اسرائیل میں حسینہ عالم کے مقابلہ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ کئی عرب ممالک نے اس مقابلہ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ افریقی رہنما نیلسن منڈیلا کے پوتے انکوسی منڈیلا نے فلسطینیوں کے حقوق کی خاطر، اسرائیل میں حسینہ عالم کے مقابلہ کے بائیکاٹ کی حمایت کی ہے۔ اب تک بیش تر عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں یہ شرط عاید کی جاتی تھی کہ اسرائیل فلسطینیوں کی علٰیحدہ ریاست کا قیام تسلیم کرے اور فلسطین پر اپنے تسلط کے خاتمہ پر راضی ہو۔ لیکن اب اس مطالبہ پر عرب ممالک کی طرف سے زیادہ زور نہیں دیا جارہا ہے اسے بھی اسرائیل کی سفارتی جیت قرار دیا جارہا ہے۔ مبصرین کے نزدیک اسرائیل کی سفارتی فتح مشرق وسطیٰ کی سیاست میں اہم تبدیلی کا پیش خیمہ ہوگی جس کے اس علاقہ میں نہایت اہم نتائج مرتب ہوں گے۔