آزمائشوں میں گھرا پاکستان

929

امریکا جب ویت نام سے شکست کھا کر واپس ہورہا تھا تو اس کا سارا غصہ ویت نام کے پڑوسی ملک کمبوڈیا پر تھا کہ ویت نام میں ذلت آمیز شکست کے جہاں اور بہت سارے اسباب تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ کمبوڈیا نے امریکا کے ساتھ اس طرح کا تعاون نہیں کیا جیسا کہ اس کو کرنا چاہیے تھا۔ اس کو کمبوڈیا میں وہ گنجائش نہیں ملی جو اسے درکار تھی۔ ایسے موقع پر ایسی بڑی طاقتیں اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتیں کہ ان سے کیا کیا غلطیاں ہوئی ہیں جن کی وجہ سے انہیں کامیابی نہ مل سکی بلکہ وہ سارا غصہ کمزوروں پر اتارتی ہیں چنانچہ ویت نام میں بے نیل ومرام واپسی کے بعد امریکا نے کمبوڈیا کا ناطقہ بند کردیا، ہمیں اس کی تفصیل میں نہیں جانا۔ آج جب امریکا افغانستان سے شکست کھا کر واپس ہوا ہے تو وہ بہت سارے مکے اپنے منہ پر مار رہا ہے جو اسے اب جنگ کے بعد یاد آرہے ہیں۔ وہ سارا غصہ پاکستان پر اُتار رہا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ پاکستان کی دُہری پالیسیوں یا دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے اسے شکست ہوئی ہے۔ وہ پاکستان پر براہ راست حملہ تو نہیں کرسکتا مگر پاکستان کو معاشی و اقتصادی طور پر مفلوج کرنے کے لیے عالمی بینک، آئی ایم ایف اور فٹیف جیسے ذیلی اداروںکے ذریعے پاکستان کے کان مروڑ رہا ہے۔
فٹیف کا مسئلہ تو کئی برسوں سے چل رہا ہے پاکستان کو جو 27اہداف فٹیف کی طرف سے دیے گئے تھے۔ فروری 2021 میں جو اجلاس ہوا تھا اس سے بہت پہلے ہی پاکستان 26اہداف پورے کرچکا تھا اور اس بات کو فٹیف کے ذمے داران نے تسلیم بھی کیا تھا پاکستان نے 26نکات پر عملدرآمد کرلیا ہے اس لیے یہ امید کی جارہی تھی پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا لیکن پچھلے اجلاس میں پاکستان کے لیے کوئی حوصلہ افزاء فیصلہ نہ ہو سکا اور پاکستان کو اگلے اجلاس تک کے لیے مزید گرے لسٹ میں رکھ دیا گیا اور مزید سات مطالبات کی فہرست اور پکڑا دی۔ اکتوبر میں فٹیف کا جو اجلاس ہوا اس میں پاکستان اور پاکستان کے عوام نے اس طرح کی خوشگوار امیدیں تو نہیں باندھی تھیں جیسا کہ پچھلے فروری کے اجلاس سے پہلے پاکستان کو امید تھی کہ اسے گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا۔ اسی لیے اس دفعہ اکتوبر کے اجلاس میں پاکستان بہت زیادہ پرامید نہیں تھا کہ اس درمیان میں افغانستان سے امریکی اور یورپی افواج کا انخلا ہوا ہے اب پاکستانی عوام اور حکمران دونوں سمجھ چکے ہیں کہ امریکا پاکستان کو نہ تو بلیک لسٹ میں ڈالے گا اور نہ ہی گرے لسٹ سے نکالے گا بلکہ وہ پاکستا ن کو سولی پر لٹکاکر رکھنا چاہتا ہے۔
50 اور 60 کے عشروں میں پاکستان کا معاشی اور اقتصادی لحاظ سے مضبوط ممالک میں شمار ہوتا تھا ملک میں تیزی سے صنعتی ترقی ہو رہی تھی ان ہی بیس سال میں منگلا اور تربیلا ڈیم بنائے گئے۔ اسی دور میں پاکستان نے چین، ترکی اور جاپان کو قرض بھی دیے تھے لیکن 1970 کے عشرے میں سقوط مشرقی پاکستان اور بچے کھچے پاکستان میں بھٹو صاحب کی تباہ کن معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ترقی کا یہ سفر الٹا ہو گیا اور پھر ملک ایسے داخلی اور خارجی مسائل میں الجھتا چلا گیا کہ اسے اپنی معیشت سنبھالنے کے لیے عالمی اداروں اور دوست ممالک سے قرض لینا پڑا اور پھر یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے امریکا یورپی ممالک اور پوری غیر مسلم دنیا کی نظر میں پاکستان کا ایک سب سے بڑا جرم تو یہی ہے کہ اسے اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے دوسرا بڑا جرم یہ ہوا کہ پاکستان نے 1973 میں اور 1998 میں بھارت کی طرف سے ہونے والے دو ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکا کرکے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ پاکستان کے یہ دو بڑے جرائم کہ ایک تو اس کا اسلامی ہونا اور اس کا ایٹمی ہونا امریکا اسرائیل اور پوری مغربی دنیا کے لیے یہ ناقابل معافی جرائم ہیں، اب تیسرا بڑا جرم جو حال ہی میں سرزد ہوا کہ افغانستان سے امریکا کو خالی ہاتھ جانا پڑا اور اب یہ ہزیمت اس سے برداشت نہیں ہورہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ پاکستان کو دبائو میں رکھنا چاہتا ہے، کچھ عرصے پہلے تک یہ بات سمجھ میں آتی تھی لیکن اب تو ایسا لگتا ہے امریکا پاکستان کو بلیک میل کررہا ہے۔
آئی ایم ایف کے مسئلے کو لیا جائے واشنگٹن میں اس کے مذاکرات ناکام ہو گئے تھے پاکستانی وفد کے سربراہ شوکت ترین واپس نیو یارک آچکے تھے۔ ان کو دوبارہ واپس بلایا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ مذاکرات ناکام نہیں ہوئے ابھی جاری ہیں اصل بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف نئے قرض کے لیے کڑی شرائط عائد کرنا چاہتا ہے اور پاکستانی وفد اس کے لیے تیار نہیں ہے کہ ملک میں پہلے ہی مہنگائی کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں، ایک سیاسی تجزیہ نگار بتارہے تھے کہ آئی ایم ایف پانچ سو ارب روپے کے ٹیکس عائد کروانا چاہتا ہے جو پاکستان کے لیے ناممکن ہے ابھی مذاکرات جاری ہیں دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ افغان مسئلے کے علاوہ امریکا کو پاکستان سے اور بھی شکایات ہیں کہ چین کے ساتھ دوستی کرنے پر تو اعتراض نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا سی پیک پر تیزی سے کام کا ہونا اور پھر روس کی طرف بھی پاکستان کا دوستی کے لیے ہاتھ بڑھانا یہ تمام چیزیں امریکا کو گوارہ نہیں۔ اسی لیے وہ پاکستان کو معاشی اور اقتصادی دبائو میں رکھنا چاہتا ہے۔
افغانستان کے مسئلے پر امریکا اپنی غلطیوں بلکہ حماقتوں پر غور نہیں کرتا کہ روس کا حشر دیکھ لینے کے باوجود وہ افغانستان پر حملہ آور کیوں ہوا، بقول سابق امریکی وزیر خارجہ کولن پاول ہم نے افغانستان میں کارپٹ بمباری کی ہے یعنی جس طرح گھروں میں قالین بچھائے جاتے ہیں اسی طرح ہم نے افغانستان میں بموں کی قالین بچھا دی ہے۔ ایک کسی طالبان کے شبہ میں پورے شادی کے گھر کو بم سے اڑادیا اور شادی گھر کو ماتم کدہ بنادیا پھر جب 2009 میں پاکستان کی طرف سے امریکا کو مشورہ دیا گیا کہ افغان مجاہدین سے بات چیت کرکے اپنی فوجیں واپس بلالیں لیکن یہ مشورہ اچھا نہیں لگا۔ پھر کئی ارب ڈالر خرچ کرکے تین لاکھ کی فوج افغانستان میں تیار کی جس میں ایک لاکھ تو گھوسٹ فوجی تھے جن کا صرف
کاغذوں میں نام تھا ان کی رقوم ان کے وار لارڈز اور ایجنٹس کھاتے رہے۔ کیا یہ سب کام پاکستان نے کیا تھا۔ بلکہ پرویز مشرف نے تو اپنے فوجی اڈے بھی دیے اور جو جو مراعات امریکا نے مانگیں وہ سب کچھ دیں اس کے باوجود امریکا یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان نے اس کے ساتھ دھوکا کیا تو وہ شدید غلطی پر ہے، پاکستان کا جرم یہ ہے کہ اس نے امریکی افواج کے انخلا میں مدد کی یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی پاکستان آنے کی لائن لگ گئی تھی وہ اپنے شہریوں کی بحفاظت واپسی کے لیے پاکستان کے سفارتی تعاون کے طلبگار تھے اور پاکستان نے ان سب کے ساتھ بہترین تعاون کیا اور ان کو محفوظ راستہ safe passage دیا۔ پاکستان کے یہ سب احسانات کو بھول کر پاکستان کو اپنی شکست کا ذمے دار سمجھنا اور اس کو معاشی طور پر سزا دینا ایسا ہی جیسا کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔