تکاثر کا پیغام

395

الھکم التکاثر، حتی زرتم المقابر، یہ دو آیات ہی انسان کے پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک کی ساری زندگی کا احاطہ کرنے کے لیے کافی ہیں، یہ دو آیات مبارکہ، اگر کوئی رہنمائی اور ہدایت پالے تو اِسے اللہ اور اُس کے رسولؐ کا اطاعت گزار بندہ بھی بنا سکتی ہیں اور اگر کوئی گمراہی میں رہنا چاہے تو یہی آیات انسان کی مسلسل بڑھتی ہوئی حرص کا نقشہ بھی کھینچ رہی ہیں، جو اس دنیا میں آیا ہے زندگی تو اس کو گزارنی ہی ہے، کوئی مال و دولت کے باعث عیاشیوں میں گزار دے گا اور کوئی کوڑے کے ڈھیر سے اپنا رزق تلاش کرتے کرتے قبر میں جاپہنچے گا، انسان گناہ گار ہو یا نیکو کار، گورا ہو یا کالا، امیر ہو یا غریب، مرنا اس کو ایک دن ہے، ہر کسی کے مذہبی عقائد کے مطابق اس کی آخری رسوم بھی ادا کی جائیں گی، جنازہ قسمت قسمت کی بات ہے، یہ قسمت کی بات اس لیے بھی ہے کہ اسامہ بن لادن کا جنازہ کہاں پڑھا گیا؟ کوئی ہے خبر کسی کو؟ وہ کلمہ گو تھا، عالم اسلام کے کسی ملک نے کوئی آواز اٹھائی؟ اگر کالم کی زبان کا دھارا اسی جانب مڑ گیا تو بات بہت دور تک نکل جائے گی اور مسلمانوں کی دینی جماعتوں کی لیڈر شپ بھی کٹہرے میں کھڑی نظر آئے گی اور امت مسلمہ کے حکمران بھی۔
نائن الیون کو گزرے اکیس سال ہوچکے ہیں، ابھی خبر نظروں سے گزری کہ غلطی اور بے بنیاد شبہ پرگرفتار ہونے والا کراچی کا ایک ٹیکسی ڈرائیور رہا کردیا گیا، اس کی رہائی اسے مبارک، مگر جیل میں گزرے اس کی زندگی کے اکیس سال کون واپس کرے گا؟ کوئی ہے جو اس کا پشتی بان بنے گا، اور ہاں وہ لیڈرشپ تو سامنے آئے، جو اس کی غیر حاضری میں اس کے اہل خانہ کی کفالت کرتی رہی ہو، اگر کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی کارکن، رہنماء اس کے گھر نہیں پہنچا تو کل انتخابات میں کسی کو کوئی حق نہیں ہے اس کی دہلیز پر ووٹ مانگنے کے لیے جائے، اور اگر کسی این جی اوز نے اس کے اہل خانہ کی کفالت نہیں کی تو ان میں سے کسی کو حق نہیں ہے کہ اس کے سامنے یہ دعویٰ کرے کہ وہ مستحق افراد کی کفالت کرتی ہے، کوئی حد ہوتی ہے بے حسی کی، ایک مسلم معاشرہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کی بستی کسی انسان کو اٹھا کر لے جائے تو وہ بستی، اس کی مدد کو سامنے آنا تو کجا، اس کے خاندان کی جانب پلٹ کر بھی نہ دیکھے، مسلم معاشرہ ایسا نہیں ہوتا جناب، اس کے کچھ آداب ہیں اور فرائض ہیں اور کچھ ذمے داریاںہیں، کون ہے جو اس ٹیکسی ڈرائیور کے سامنے آکر یہ دعویٰ کرے وہ ان آداب، حقوق اور ذمے داریوں کو پورا کررہا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، اور آئین میں درج ہے کہ یہ ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے، ریاست کا فرض ہے کہ وہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی محافظ بنے ریاست کا یہ فرض آئین نے متعین کیا ہوا ہے،
نائن الیون کے بعد ایک حکمران نے فیصلہ کیا اور امریکا سے کہا کہ آئو ہماری سرزمین سے گزرو، ہماری فضا اور سمندری حدود استعمال کرو اور افغانستان پر چڑھ دوڑو، پھر امریکا نے ایسا ہی کیا، وہ حکمران آج اپنے تمام تمغے سینے پر سجائے ایک محفوظ زندگی گزار رہا ہے، اس فیصلے کے باعث ہمارے لاکھوں شہری، ہزاروں فوجی جوان، پولیس اہل کار، درجنوں جید علماء کرام دہشت گردی کی نذر ہوئے، کسی نے پرویز مشرف سے پوچھا کہ یہ فیصلہ کیوں کیا؟ اس سے کسی نے نہیں پوچھا بلکہ اسے پورا موقع دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی کی پارلیمنٹ بنائے اور اپنی مرضی کا وزیر اعظم لائے اور اسی پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف بھی اسی کی مرضی کا ہو، ملک کے سینئر اور بزرگ سیاست دان، راجا محمد ظفر الحق کی جن جنرل پرویز مشرف سے ملاقات ہوئی تو انہیں کہا گیا کہ وہ آئیں اور بطور وزیر اعظم ملک کا نظم و نسق سنبھالیں، اور ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ فیصلہ بھی کریں کون اسمبلی میں آئے اور کس کو اسمبلی میں نہیں آنا چاہیے، مگر راجا صاحب نے انکار کردیا کہ وہ ان کا ساتھ نہیں دے سکتے، آج سیاسی حلقوں میں ان کی عزت ہے اور انہیں احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، انہوں نے ایک یہ انکار کرکے اپنی سیاسی زندگی ضائع نہیں کی۔
پورے راولپنڈی ڈویژن میں کوئی ایک بھی سیاسی رہنماء نہیں ہے جو یہ دعویٰ کر سکتا ہو کہ پرویز مشرف نے اسے وزارت عظمیٰ کی پیش کش کی اور اس نے انکار کردیا ہو، اس ملک میں بے شمار سیاسی رہنماء ہیں جو سیاست میں تو ہیں مگر ان کے کریڈٹ پر انکار نہیں ہے، بے شمار سیاسی کارکن ہیں جو پارلیمنٹ تک بھی پہنچے، کابینہ کا حصہ بھی بنے، ان کی سیاست کا میرٹ صرف ہاں میں ہاں ملانا تھا اور ہے، پاکستان کی سیاست میں ایک انکار دنیائے اسلام کے ممتاز اسکالر محترم سید مودودی نے کیا تھا، ہم ان کی سزائے موت کے فیصلے سے متعلق ابھی بات نہیں کرتے، یہ شناخت بھی صرف انہیں ہی نصیب ہوئی تھی مگر انہوں نے ایوب خان کو انکار کیا تھا اور ان کی خواہش کے عین مطابق انہیں فتویٰ دینے سے انکار کیا تھا، ایواب خان خود ان کی دہلیز پر پہنچا تھا، مگر سید مودودی نے ا نکار کردیا کہ جہاد کے اعلان کے لیے اسلامی ریاست کے میرٹ کو دیکھنا ہوگا، آج ہمارے سامنے بے شمار مثالیں ہیں، ادھر حکمران نے بلاوا بھیجا، اگلی فلائٹ سے سرکاری ٹکٹ پر حکمران کے دربار میں پہنچے اور وہ سب کچھ دے دیا جو اس نے مانگا، وقت کے چیف جسٹس نے جنرل پرویز مشرف کو تین سال اور آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار کیوں اور کیسے دیا، اس ستدعا کے ساتھ روبرو پیش ہونے والی درخواست کیوں من و عن تسلیم کی گئی، اس پر بھی بات ہونی چاہیے؟ اور بات تو اس پر بھی ہونی چاہیے کتنے سرکاری ملازمین ہیں جن کا اپنا ڈومیسائل جعلی ہے، کتنے ہیں جنہوں نے سرکار کی ملازمت کے حصول کے لیے اپنی عمر کم لکھوائی؟ چیف جسٹس صاحب سے گزارش ہے کہ وہ ایسے افراد کو تلاش تو کریں؟