غیر منصفانہ تقسیم ہی برائی کی جڑ ہے

466

دنیا بھر میں کوئی بھی مسئلہ ہو اس کے پیچھے غیر منصفانہ تقسیم ہوگی۔ اختیارات کی غیر منصفانہ تقسیم نے بڑے بڑے ملکوں کی ہوا اکھاڑ دی۔ بڑی بڑی طاقتیں تباہی کے قریب پہنچ گئیں۔ دولت کی منصفانہ تقسیم نے ملکوں کی معیشت تباہ کردی اور چھوٹے بڑے امیر غریب دوسری تیسری دنیا کی تفریق پیدا کی ہے۔ اسی طرح خوراک کی غیر منصفانہ تقسیم نے پوری دنیا میں بھوک، بیماری، اموات اور قحط کی صورت حال پیدا کر رکھی ہے۔ دنیا کے خالق اور انسانوں کو یہاں بھیجنے والے نے رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ان کی تعداد کے حساب سے کب کب کتنے لوگ اس کرئہ ارض پر بستے ہیں ان کو جس جس چیز کی ضرورت ہے ان سب کا بندوبست اس زمین پر کردیا ہے۔ لیکن ساری خرابی انسانوں کی اپنے ہاتھوں کی ہے۔ زمین تک کی منصفانہ تقسیم کرنے کو تیار نہیں۔ نتیجتاً ساری دنیا پریشان ہے۔ آج کل اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا میں خوراک کی قلت اور بعض ملکوں میں خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہلاکتوں اور بیماریوں کی رپورٹیں جاری کی جارہی ہیں۔ لیکن کیا یہ امر واقعہ ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ بھی انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ دنیا میں خوراک کی کمی ہے نہ وسائل کی صرف ان وسائل پر قابض لوگوں کی نیتوں کا مسئلہ ہے۔ ورنہ خوراک وافر ہے اور ضرورت سے زیادہ بھی ہے۔
اب آئیں اقوام متحدہ کیا کررہی ہے۔ اس نے ایسا ماحول قائم کررکھا ہے جس کے نتیجے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہروقت اپنا سودا بیچنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اب بھی اصل خرابی کو دور کرنے کے بجائے دنیا کو تشویش میں مبتلا رکھنا اس کا کام ہے تاہم اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے یعنی خوراک اور زراعت سے متعلق ادارے ایف اے او نے خوراک کے نقصان اور ضیاع کو روکنے کے لیے اقدامات کی اپیل کی ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ یہ ضیاع دنیا بھر میں بھوک اور غذائی قلت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ادارے کے ماہرین نے اعتراف کیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر کے ممالک لگ بھگ 8 ارب لوگوں کے لیے کافی خوراک پیدا کررہے ہیں، لیکن اس کے باوجود 80 کروڑ لوگ ابھی تک بھوک کا شکار ہیں اور 2 ارب انسانوں کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس سے صحت کے سنگین مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ خوراک اور زراعت کے عالمی ادارے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پیدا کی جانے والی خوراک کا لگ بھگ ایک تہائی یا ایک ارب 30 کروڑ ٹن خوراک کسی کے پیٹ میں جانے کے بجائے آخر کار پرچون مارکیٹ میں پڑے پڑے گل سڑ جاتی ہے یا صارفین کے کوڑے دانوں میں چلی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس نقصان کا اندازہ سالانہ 10 کھرب ڈالر ہے۔ خوراک اور غذائیت کے امور سے متعلق ایف اے او کی ڈپٹی ڈائریکٹر ننسی ابورٹو کا کہنا ہے کہ خوراک کے ضیاع کے نتیجے میں پانی، زمین، توانائی، مزدوری اور سرمائے سمیت وہ تمام وسائل ضائع ہو جاتے ہیں جو اسے پیدا کرنے میں صرف ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر خوراک کے ضیاع کی روک تھام کے لیے اقدام نہ کیے گئے تو اقوام متحدہ 2030ء تک بھوک کے خاتمے سے متعلق دیرپا ترقی کے اپنے ہداف کو کبھی حاصل نہیں کرسکے گا۔ ابورٹو کا مزید کہنا تھا کہ غذائی قلت کے باعث ایک جانب لاکھوں بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، تو دوسری طرف ہر 3 میں سے ایک بالغ شخص مٹاپے کا شکار ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ غذائیت کی کمی کا ایک اور سبب غیر صحت بخش خوراک اور ضروری وٹامنز اور معدنیات کی غذا میں کمی ہے۔ صحت بخش خوراک کی زیادہ قیمت ہونے کے سبب دنیا کے ہر براعظم، علاقے اور ملک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران یہ صورت حال مزید سنگین ہوگئی ہے۔ صحت بخش خوراک کے بغیر ہم کبھی بھوک اور غذائیت میں کمی کے مسئلے پر قابو نہیں پاسکتے۔ خوراک اور زراعت کے عالمی ادارے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2019ء کے دوران دنیا بھر میں پیدا ہونے والی خورک کا 14 فی صد حصہ کھیتوں کھلیانوں سے لے کر اسے فروخت کے مراکز تک پہنچانے کے عمل کے دوران ضائع ہوگیا تھا، جب کہ اس سال کے اعداد و شمار کے مطابق دستیاب خوراک کا اندازاً 17 فی صد حصہ ضائع ہوگیا۔
یہ سب تو اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ میں تھا۔ یہ ادارہ یہ رپورٹ نہیں دیتا کہ پانی کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے نتیجے میں صاف پانی غریبوں تک نہیں پہنچ پاتا۔ خوراک سے صحت بخش غذائی اجزا نکال کر انہیں الگ فروخت کرنے والے ممالک اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کون کون سی کمپنیاں شامل ہیں پانی میں جراثیم کون سی کمپنی ملاتی رہی ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے وہ ایسا کوئی کام نہیں ہونے دیں گے جس سے یہ مجرم بے نقاب ہوسکیں۔ ان سب چیزوں کو سامنے رکھیں اور غور کریں۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے ہمارا کیا کام ہے۔ کچھ تنظیمیں اور ادارے شادی بیاہ میں کھانا ضائع کرنے کو روکنے کی مہم چلاتے ہیں لیکن ہم اپنے گھروں میں کیا کرتے ہیں۔ ایک وقت کا بچا ہوا کھانا بعض اوقات تو ایسے ہی پھینک دیا جاتا ہے ایک نیا چلن دیکھنے میں آیا ہے۔ دو تین دن فریج میں ٹھنڈا کرنے کے بعد پھینکا جاتا ہے۔ اس کی وجہ اس پر تین دن گزرنا نہیں ہوتے بلکہ مزید تین دن کے بچے ہوئے کھانے آنے پر پرانے والے کی جگہ نہیں بچتی۔ کبھی کبھی مایوس ہو کر ماسی جمعدار وغیرہ کو دے دیا جاتا ہے جو راستے میں تھیلی پھینک کر چلے جاتے ہیں۔ اتنے تو وہ بھی ہوشیار ہیں کہ اندازہ لگا سکیں کہ کتنے دن پرانا کھانا ہے۔ ہم مسلمانوں کو اقوام متحدہ کی اپیل کا انتظار نہیں کرنا چاہیے اپنے اللہ اور رسولؐ کی ہدایت اور رہنمائی پر عمل کریں۔ کم از کم اپنے شہر اپنے ملک میں تو معاملات اچھے رہیں گے۔