عالمی ادارے یا عالمی شیطان

835

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج دنیا کی ابتر صورت حال کی بڑی وجہ امریکا اور وہ بڑی طاقتیں ہیں جنہوں نے دنیا کو محکوم بنا رکھا ہے۔ یورپ کے بارے میں عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ یورپ ہمیشہ سے ایسا ہی پرامن، جدید اور ترقی یافتہ تھا جیسا کہ آج ہے۔ یہ ایک غلط خیال ہے۔ ستر ہویں صدی تک یورپ عشروں پر محیط خونیں مذہبی جنگوں، جہالت اور غربت میں ڈوبا ہوا تھا۔ سترہویں صدی میں معاہدہ ویسٹ فیلیا (1648) کے بعد یورپ کی نشاۃ ِ ثانیہ کا آغاز ہوا جس کے بعد اٹھارویں صدی میں یورپ نئی منڈیوں کی تلاش اور دنیا کی کمزور اقوام کو لوٹنے کے لیے نکل پڑا۔ یہ یورپ کے بدترین ظالمانہ استعماری کردار اور سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کا ملاپ تھا جس نے یورپ کو خوش حال ترقی یافتہ اور جدید دنیا بنادیا جب کہ دنیا کے بیش تر حصے کو غربت، بھوک اور پسماندگی کی طرف دھکیل دیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد مغرب نے اس روایتی استعماری نظام کو ایک دوسرے روپ میں دنیا پر مسلط کرنا شروع کردیا جسے ’’عالمی برادری‘‘ اور ’’عالمی رائے عامہ‘‘ کا نام دیا گیا۔ ان اصطلاحات سے پُر فریب طور پر ایک ایسی عالمی حاکمیت کا تصور سامنے لایا گیا جس سے تمام ریاستیں فائدہ حاصل کرسکیں گی اور ایسے ’’عالمی‘‘ ادارے وجود میں لائے گئے جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ دنیا کی تمام ریاستوں کے مفادات کے حامی اور نگہبان ہوں گے اور ایک ایسے متفقہ عالمی نظم ونسق، مالیاتی استحکام اور خارجہ پالیسی کے اصولوں پر کام کریںگے جس سے دنیا کی تمام ریاستوں کے حالات بہتر ہوسکیںگے۔ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایف اے ٹی ایف اسی سوچ کے مظہر ادارے ہیں۔ اقوام متحدہ عالمی سیاسی تنازعات، آئی ایم ایف وغیرہ عالمی مالیاتی استحکام اور ایف اے ٹی ایف عالمی مالیاتی نظم ونسق کو درپیش معاملات حل کرنے کے نام پر بنائے گئے۔
عالمی برادری اور عالمی اداروں کی اصطلاح سے یہ خیال تصور میں آتا ہے کہ ان میں تمام ریاستوں کی مشاورت اور شمولیت کا اہتمام موجود ہوگا اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ یہ ادارے صرف اور صرف امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کے ترجمان، ان کے حقوق کے محافظ اور ان کے نئے عالمی کردار کو آگے بڑھانے میں معاونت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں ویٹو پاور اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ چند بڑی طاقتیں ہی حقیقت میں عالمی طاقتیں ہیں جو دنیا کی باقی ریاستوں کے اثر رسوخ، سیاسی کردار اور طاقت پر حاوی ہیں۔ آئی ایم ایف کا ڈھانچہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آئی ایم ایف کے فیصلوں میں امریکا ہی بنیادی طاقت اور کردار کا حامل ہے کیونکہ وہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے کے ساتھ ساتھ فنڈ کا سب سے بڑا معاون اور شیئر ہولڈر ہے۔ حاصل یہ کہ ’’عالمی‘‘ کا لفظ محض ایک دھوکا ہے اور عالمی بردری، عالمی رائے عامہ دنیا کے معاملات اور عالمی حاکمیت میں عالمی طاقتوں کے استعماری کردار اور جارحیت کو آگے بڑھانے اور ان کے اثر رسوخ کو نافذ کرنے کا نام ہے۔
عالمی برادری اور عالمی رائے عامہ کی ایک دوسری جہت بھی ہے جو حقیقتاً اس کی بنیاد کی پہلی اینٹ ہے۔ یہ یورپ کی عیسائی برادری کا اتحاد ہے جو سرمایہ دارانہ نظام پر یقین رکھتی ہے۔ عالمی برادری اور عالمی رائے عامہ کا حوالہ عموماً سیاسی معاملات میں دیا جاتا ہے جیسے مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین وغیرہ لیکن اس کا ثقافت پر بھی اتنا ہی اثر ہے جتنا سیاست پر۔ جو مغربی کلچر کو دنیا پر مسلط کررہا ہے جو ریاست کے کسی بھی ایسے مفاد کو رد کردیتا ہے جو سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی (جس میں عقیدے اور اظہار رائے کی آزادی شامل ہے) اور مغربی کلچر کے خلاف ہو۔ توہین رسالت اس کی ایک مثال ہے جسے مسلم معاشرہ مذہبی تقدس کی پامالی کی نظرسے دیکھتا ہے جب کہ مغرب اسے خالصتاً آزادی رائے کا معاملہ سمجھتا ہے۔
یورپی عیسائی برادری ہی دراصل بین الاقوامی یا عالمی برادری کی بنیاد ہے جو ریاستوں کو اس امر پر مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے مفادات کی تشریح عالمی برادری کے ان خیالات اور آراء کے مطابق کریں جن کی تشکیل خالصتاً مغربی مفادات اور نکتہ نظر کے مطابق کی گئی ہے۔ نائن الیون کے بعد برپا کی گئی دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکا اور یورپ کی جنگ تھی لیکن پاکستان کو مجبور کیا گیا کہ وہ اسے اپنی جنگ کہے اور سمجھے۔ اس حکمت عملی کی وجہ سے امریکا کو دیگر ریاستوں کے معاملات میں زبردست اثر رسوخ اور طاقت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ ریاستیں مجبور محض بن کررہ جاتی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان عملاً امریکا کی کالونی بن کررہ گیا تھا۔ عالمی ادارے پاکستان کی خود مختاری پر ہی حملہ نہیں کررہے ہیں بلکہ کسی بھی ملک کی دوسری اور سب سے اہم دفاعی لائن ریاست اور عوام کے فطری ربط اور تعلق کو بھی ختم کررہے ہیں۔ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے معاملے کو دیکھ لیجیے پاکستانی ریاست اور عوام مدمقابل کی طرح دو انتہائوں پر کھڑے ہیں۔
عالمی برادری اسلام اور اسلامی ریاستوں کی دشمن عیسائی برادری ہے۔ عیسائی دنیا کے ماضی، حال اور مستقبل کو اسلام دشمنی کے بغیر ڈیفائن نہیں کیا جاسکتا۔ عیسائی دنیا آج سرمایہ دارانہ نظام کی جس آئیڈیالوجی کی علمبردار ہے اسے جو برتر آئیڈیالوجی چیلنج کررہی ہے اور اس کے خلاف برسر جنگ ہے وہ اسلام ہے۔ مغرب اپنے عالمی اداروںکے ذریعے اسلام کے خلاف یہ جنگ لڑرہا ہے۔ آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کو صرف معاشی معاملات میں ہی دخل اندازیوں، دبائو اور مجبوریوں کا سامنا نہیں ہے وہ ایسے معاملات کو بھی قبول کرنے پر مجبور ہے جو پاکستانی معاشرے کے عقائد کے خلاف ہیں۔
آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت کو جس نکتہ نظر سے چلانے پر زور دیتا ہے اس میں ان اقدامات کا ذکر کیا جاتا ہے: 1۔ سبسڈیوں کا خاتمہ 2۔ ٹیکسوں میں اضافہ 3۔ حکومتی مداخلت سے آزاد کرنسی ریٹ (تاکہ روپے کی قدر میں کمی کی جاسکے) 4۔ حکومتی مداخلت سے آزاد شرح منافع (سود) جس کا انحصار مارکیٹ پر ہو 5۔ آزاد تجارتی پالیسی 6۔ ریاستی اداروں کی نجکاری 7۔ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے سرمایہ کاری کی شرائط میں آسانیاں اور نجی ملکیت کے تحفظ کے لیے سازگار قوانین کا نفاذ۔
آئی ایم ایف کے ان پروگراموں کی ایک ایک شق کی تفصیل میں جائیے تو اس میں سود ہی سود نظر آتا ہے جو پاکستان کے عوام کے عقائد کے سراسر خلاف ہے کیونکہ اسلام میں سودی قرضوں اور سودی لین دین کی سختی سے ممانعت ہے۔ یہ ملکی اور غیر ملکی سودی قرضے ہیں جنہوں نے پاکستان کو جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ آئی ایم ایف کا استعماری کردار ہے کہ آج پاکستان کی معیشت اس کے قبضے میں ہے اور پاکستان کے حکمران طبقے کی تمام سرگرمیوں کا مرکزو محور آئی ایم ایف کے سود کی ادائیگی تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ ایک بدتر صورتحال ہے لیکن اس سے بھی بدترین بات یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کا تمام ڈھانچہ سود کی بنیادوں پر استوار ہے۔ آئی ایم ایف کے دبائو کی بنا پر ہونے والی مہنگائی، ٹیکسوں میں اضافے اور نجکاری کے عمل کو تو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن سود کے خاتمے کی بات نہیں کی جاتی جو انسانوں کا انسانوں پر بدترین ظلم ہے۔ اتنا بڑا ظلم کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسول عالی مرتبت محمدؐ سے جنگ کے مترادف قراردیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرض سے تو جلد یا بدیر نجات مل جائے گی۔ ماضی میں بھی ہم آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر آئے ہیں کیونکہ آئی ایم ایف کے خلاف ہمارے یہاں شدید نفرت پائی جاتی ہے لیکن ویسی نفرت سود کے خلاف نہیں پائی جاتی۔ کسی بھی طبقے، سیاسی پارٹی اور سول فوجی حکومت کی طرف سے اس کے خاتمے کے لیے جدوجہد نظر نہیں آتی حالانکہ انسانی زندگی کا سب سے بڑا بگاڑ سود ہے جو ہر پہلوسے تباہ کن ہے۔ جس کا ایک ہی مطلب ہے ایک مال دار دوسرا نادار۔