پاکستان امریکا کا اگلا نشانہ

668

درد اور بے حساب درد دینے کے بعد وزیراعظم عمران خان اب دوا دینے کے درپے ہیں۔ وہ مہنگائی کے ماروں کی گھبراہٹ دور کرنا چاہتے ہیں حالانکہ معاملہ اختلاج تک آپہنچا ہے۔ لطیفوں کی دنیا میں جس طرح سکھوں سے عقل کی بات ممکن نہیں اور ہندئوں سے بہادری کی، حقیقی دنیا میں اسی طرح عمران حکومت اور مہنگائی میں کمی! ممکن نہیں۔ عمران خان مہنگائی میں کمی کی بات کرسکتے ہیں لیکن مہنگائی کم کرنا! اب یہ ان کے بس کی بات نہیں رہی۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کے جسم میں ایک لاکھ انتالیس ہزار رگیں ہوتی ہیں لیکن صرف بیوی ہی جانتی ہے کہ کب کون سی رگ دبانی ہے۔ عمران خان کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس اسد عمر کی صورت ایک جینئس ایسا موجود ہے جو جانتا ہے کہ مہنگائی کی کب کون سی رگ دبانی ہے۔ ایک بہت بڑا طبقہ انہیں پی ٹی آئی کا دماغ تصور کرتا تھا لیکن وہ صرف ’’پوسٹر بوائے‘‘ ثابت ہوئے۔ اقتدار میں آنے کے چند مہینے بعد ہی ان سے وزارت خزانہ کا قلمدان واپس لے لیا گیا۔
ناکام اسد عمر کی جگہ ناکام ترین عبدالحفیظ شیخ کو لایا گیا۔ عبدالحفیظ شیخ کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا پروگرام جاری کروایا جس کے متعلق عمران خان کہتے تھے مرجائوں گا آئی ایم ایف نہیں جائوں گا۔ دوبرس بعد انہیں یہ کہہ کر عہدے سے ہٹادیا گیا کہ وہ مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں حالانکہ چند ہفتے پہلے تک عمران خان انہیں سینیٹ کا رکن بنانے کی کوششیں کررہے تھے۔ ان کے دور میں صنعتی شعبہ بری طرح متاثر ہوا اس حد تک کہ منفی زون میں چلا گیا۔ ان کی پالیسیوں کے سبب معیشت مسلسل سکڑتی رہی۔ ملازمت کے مواقع پیدا ہونا تو دور کی بات بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ ان کے بعد حماد اظہر کو وزارت خزانہ سونپی گئی۔ حماد اظہر اس عہدے پر تین ہفتے سے بھی کم مدت رہ سکے۔ اس برس اپریل سے ماہر معاشیات شوکت ترین کو وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا گیا۔ ان وزرائے خزانہ نے معیشت کے معاملات کو اتنا غیر مستحکم کردیا کہ کچھ بھی ٹک نہیںرہا۔ دی اکانو مسٹ کے حالیہ سروے کے مطابق 43ممالک میں ارجنٹائن ترکی اور برازیل کے بعد مہنگائی کے اعتبار سے پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ بھارت مہنگائی کے اعتبار سے سو لہواں ملک ہے جب کہ بنگلا دیش، نیپال، سری لنکا اور تمام عرب ممالک پاکستان سے سستے ہیں۔
اس دوران جہاں وزرائے خزانہ معیشت کے جہان خراب میں طبع آزمائیاں کرتے رہے وہیں وزیراعظم عمران خان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ مرغیوں، انڈوں، کٹوں اور بکریوں کے بعد ان کا تازہ آئیڈیا موٹر سائیکل اور رکشہ والوں کو کم قیمت پٹرول مہیا کرنا ہے۔ یہ ایک ناقابل عمل اور مضحکہ خیز ’’لچک‘‘ ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ پٹرول پمپوں میں ایک ہی وقت میں موٹر سائیکل اور رکشے والوں سے الگ قیمت وصول کی جائے اور کار ٹرک اور بھاری گاڑیوں سے الگ۔ یہ کرپشن کے نئے کھاتے کھولنے والی بات ہے۔ پٹرول پمپ والے سارا پٹرول موٹر سائیکل اور رکشہ والوں کو فروخت کر نے کا ظاہر کرکے ایک طرف حکومت سے سب سڈی لیں گے اور دوسری طرف زائد قیمتوں میں بھاری گاڑی والوں کو فروخت کردیں تو انہیں کون چیک کرے گا۔ موٹر سائیکل اور رکشہ والوں کے لیے الگ یوٹیلیٹی پٹرول پمپ کھولے جائیں تب ہی ایسا ممکن ہے اور یہ ممکن نا ممکن ہے۔ ایسے میں کار والوں کو یہ نعرے لگانے سے کون روکے گا کہ موٹرسائیکل اور رکشے والوں کو این آراو دینا بند کرو۔
شوکت ترین اس حکومت کے چوتھے وزیر خزانہ ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کئی دہائیوں سے پاکستان کا وزیرخزانہ آئی ایم ایف ہے جو امریکا کے کنٹرول میں ہے اور اسی کے مفادات کی نگہبانی کرتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا نے دنیا پر واضح کردیا تھا کہ اب دنیا کی حیثیت ایک کمپنی کی سی ہے اور چونکہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، اس کمپنی میں سب سے زیادہ شیئرز امریکا کے ہیں، لہٰذا امریکا ہی اس کمپنی کا مالک ہے۔ یہی صورتحال آئی ایم ایف میں ہے جس کا سب سے بڑا معاون امریکا ہے۔ امریکا کا آئی ایم ایف میں 27.2فی صد حصہ ہے۔ یوں امریکا کو آئی ایم ایف کے فیصلوں میں بالادستی اور عملاً ویٹو پاور حاصل ہے۔
15اگست 1971 کو امریکا نے اس معاہدے پر عمل کرنے سے انکار کردیا جس کے تحت وہ ڈالر کے بدلے سونا دینے کا پابند تھا جس کے بعد ایک نئی صورتحال پیدا ہوگئی۔ عالمی سطح پر دیگر مضبوط کرنسیوں کے متعارف کرائے جانے کے باوجود عملاً عالمی تجارت ڈالر کے ہاتھوں یرغمال بن کررہ گئی۔ اس حدتک کہ اگر امریکا کو چھینک آتی ہے تو دنیا کو زکام ہوجاتا ہے۔ اب یہ دنیا بھر کی معیشتوں کی مجبوری ہے کہ عالمی تجارت میں شامل رہنے کے لیے اپنی کرنسیوں کو کمزور رکھ کر ڈالر کی قدر کو اونچا رکھیں، چاہے اس کے اثرات ان کی اپنی ملکی معیشت کے لیے کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں۔ آئی ایم ایف کا کردار یہی ہے کہ وہ ڈالر کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے نام پر دنیا کی کسی بھی ملک کو نشانہ بناکر اس کی معیشت کو تباہ وبرباد کرسکتا ہے۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد عالم اسلام امریکا کا اگلا ہدف تھا جس کی وجہ سے اس نے ناٹو کو برقرار رکھا۔ ایک سرے سے دوسرے تک اسلامی ممالک کو برباد کرنے کے بعد چین امریکا کا اگلاہدف قرار دیا جارہا ہے لیکن آسٹریلیا کے اسٹرٹیجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ ’’چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت پر بھروسا کرنا ایک بڑی غلطی اور خودکشی کے مترادف ہوگا اور خطے میں چین توقع سے بھی کم وقت میں یہ جنگ جیت جائے گا‘‘۔ افغانستان سے دس دن کے اندر امریکا کو جس طرح جلد بازی میں اپنی افواج کو نکالنا پڑا وہ عا لمی سطح پر امریکا کے لیے عظیم رسوائی کا سبب بنا۔ امارت اسلامیہ کے قیام کے بعد اور امریکا کی شکست میں پاکستان کے مبینہ کردار کی وجہ سے امریکا کا اگلا ہدف پاکستان ہے ساتھ ہی افغانستان اور ایران بھی۔
ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے افغانستان اور عراق کی طرح پاکستان پر حملہ امریکا کے لیے ممکن نہیں۔ نائن الیون کے بعد اس آپشن پر غور کیا گیا تھا لیکن اگلے ہی لمحے اسے پاگل پن قرار دیتے ہوئے ترک کردیا گیا تھا۔ امریکا معاشی طور پر پاکستان کو مفلوج کرکے برباد کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے اسٹیٹ بینک کے گورنر کے عہدے کے لیے 4مئی 2019 کو آئی ایم ایف کے سابق عہدے دار ڈاکٹر رضا باقر کو پاکستان میں تعینات کیا گیا۔ رضا باقر 2000 سے آئی ایم ایف سے منسلک ہیں اور مصر، فلپائن، بلغاریہ، رومانیہ، قبرص، گھانا، یونان، جمیکا، پرتگال، تھائی لینڈ اور یوکرین میں آئی ایم ایف کے نمائندے کے طور پر کام کرچکے ہیں۔ کوئی پاگل بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کی وفاداری پاکستان کے ساتھ ہوگی۔ رضا باقر اور سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ کا ہدف تین سال میں آئی ایم ایف کو قرض کی ادائیگی اور پاکستان کو نئے قرضوں میں جکڑے رکھنا ہے۔ ان کا پاکستان کی صنعتی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے تاکہ مہنگی صنعتی اشیا درآمد کی جاتی رہیں اور برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہوسکے اور پاکستان ہمیشہ آئی ایم ایف پر انحصار کرتا رہے۔ یہ آئی ایم ایف کا دبائو ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے روپے کی قدر مسلسل کم ہورہی ہے۔ ڈالر 175پر چلا گیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 140 روپے تک پہنچ گئیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ یہ صورت حال پاکستان کی ریاستی اور معاشرتی خود مختاری پر وہ حملہ ہے جس کے بعد وہ ملکی خود مختاری اور عالمی معاملات کو اپنے طور پر طے کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ آج ہی روزنامہ جسارت کی شہ سرخی ہے ’’پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کے معاہدے کے قریب ہیں۔ امریکا‘‘ جنرل حمید گل کہا کرتے تھے ’’نائن الیون بہانہ، افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے‘‘ کیا پاکستان ایک بار پھر امریکا کے نشانے پر ہے۔