مغرب کے باغی کی موت

812

اسی ماہ کی دس تاریخ کو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان انتقال کرگئے۔ 26اگست کو وہ کورونا سے متاثر ہوئے تھے۔ طبیعت زیادہ خراب ہونے پر انہیں اسپتال لایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہوسکے اور خالق حقیقی سے جاملے۔ ہر پاکستانی ڈاکٹر عبدالقدیر کا مقروض ہے۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور ناقابل تسخیر بنانے میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ 1960 میں کراچی یونیورسٹی سے سائنس کی اعلیٰ ڈگری لینے کے بعد وہ مزید تعلیم کے لیے جرمنی کے شہر برلن چلے گئے جہاں ٹیکنیکل یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ سے ماسٹرز آف سائنس اور پھر بلجیم کی یونیورسٹی آف لیوئون سے ڈاکٹریٹ آف میٹلر جیکل انجینئرنگ کی اسناد حاصل کیں۔ اس کے علاوہ ایمسٹر ڈیم میں فزیکل ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری جوائن کی۔ 1976 میں وہ پاکستان تشریف لائے۔ ان کی انتھک محنت اور خدمات کے نتیجے میں 1998 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے کامیاب ایٹمی دھماکے کیے اور یوں پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔
مرحوم ڈاکٹر عبدالقدیر کی عظیم خدمات کو عموماً پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے لیکن ان کی شخصیت کے ایک بہت بڑے اور عظیم ترین پہلو پر توجہ نہیں دی جاتی۔ وہ مغرب کے باغی تھے۔ افراد کا تو سوال ہی نہیں ریاستوں کے لیے بھی مغرب کے عالمی نظام سے ٹکرانا اور اسے شکست دینا ممکن نہیں لیکن انہوں نے تن تنہا مغرب کے بین الاقوامی قوانین اور استعماری کردارکو اڑا کر رکھ دیا۔ انہوں نے عمل کرکے دکھادیا کہ جب تک ہم مغرب، اس کے اپنے مفاد اور دنیا کی بربادی کے لیے وضع کردہ بین الاقوامی قوانین اور استعماری ورلڈ آڈرکی پیروی کرتے رہیں گے غلامی کی ایک صورت سے نکل کر دوسری صورت میں داخل ہوتے رہیں گے اور کبھی آزادی کی نعمت سے ہمکنار نہ ہوسکیں گے۔ رہا دنیا میں کوئی طاقتور مقام حاصل کرنا اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بلجیم سے ٹیکنالوجی لانا اور اس کی مدد سے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانا، مغرب کی اس محکوم دنیا میں اس کے تسلط اور اجارہ داری کو چیلنج کرنا نہیں شکست دینے کے مترادف ہے اس اعتبار سے ڈاکٹر عبدالقدیر صرف پاکستان ہی کے نہیں امت مسلمہ کے محسن ہیں۔
عالمی برادری اور اس کے وضع کردہ قوانین اور ادارے مغرب کی عیسائی ریاستوں کی برادری کے مفاد کی بنیاد پر وضع کیے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے اسے عالمی برادری کہنا درست نہیں کہ یہ صرف یورپ کی عیسائی ریاستوں کی برادری ہے جس میں غیرعیسائی ریاستوں کی شمو لیت ممکن نہیں۔ لیکن مغرب کی اس دنیا میں، صرف اسی برادری کو عالمی برادری اور اسی کے کردار کو عالمی کردار باور کیا جاتا ہے اور بزور طاقت دنیا سے تسلیم کرایا جاتا ہے۔ تمام عالمی قوانین، عالمی معاہدے، بین الاقوامی ضوابط، عالمی ادارے اسی عیسائی برداری کے مفاد میں بنائے گئے ہیں جن کا ہدف اسلامی ممالک ہیں۔ اسلام کی نفرت اور مخالفت مغرب میں ایسی رچی بسی ہے کہ اس نفرت کو اگر مغرب کے وجود سے نکال دیا جائے تو مغرب کے ماضی، حال، مستقبل، اس کی تاریخ اور جغرافیہ کو ڈیفائن کرنا ممکن نہیں۔ مغرب نام ہے اسلام اور مسلمانوں کے رد کا۔ اس کی وجہ ہے اور بہت بڑی وجہ ہے۔ مغرب کی جمہوریت، سرمایہ داریت، سیکولرازم، لبرل ازم، ورلڈآڈر، نیشن اسٹیٹ، فیاٹ کرنسی، اقوام متحدہ اور اس جیسے دیگر اداروں کو اگر کہیں سے خطرہ ہے تو وہ مسلمانوں سے ہے، اسلام سے ہے جو متبادل نظریہ کے طور پر انہیں ہر محاذ پر چیلنج کررہا ہے۔ ایسے میں کسی اسلامی ریاست کا ایٹمی قوت بننا پوری عیسائی برداری کو شکست دینے کے مترادف ہے۔ یہ ناقابل یقین کام ڈاکٹر قدیر نے انجام دیا جنہوں نے عیسائی دنیا کے تمام قوانین ضابطوں کو توڑ کر ایک اسلامی ملک کو ایٹمی طاقت بناکر دکھایا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر کا یہ کارنامہ اتنا عظیم تھا کہ ان کے انتقال پر پورے پاکستان، حکومتی اداروں، فوجی اور سویلین قیادت کو صدمے سے ساکت ہوجانا چاہیے تھا۔ ان کی آخری رسوم اس شایان شان طریقے سے ادا کرنا لازم تھیں جو ان کے کارنامے اور خدمات کا تقاضا تھی۔ لیکن افسوس حکومتی سطح پر چند رسمی عقیدتوں کے اظہار کے علاوہ ان کی تجہیز وتکفین اور علاج معالجے میں کسی سرگرمی کا اظہار نہیں کیا گیا۔ مرحوم عمرشریف اور ڈاکٹر عبدالقدیر کی شخصیت اور خدمات کا کسی بھی درجے میں تقابل ممکن نہیں۔ مرحوم عمر شریف کے لیے جو کچھ کیا گیا وہ یقینا عظیم فنکار کی حیثیت سے اس کے مستحق تھے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر عبدالقدیر کے لیے حکومتی سطح پر اس سے لاکھ نہیں کروڑ نہیں اربوں گنا زیادہ انتظامات اور جذبات کا اظہارہونا چاہیے تھا حالانکہ وہ بھی ان کی خدمات کے مقابلے میں ہیچ ہوتے لیکن اتنا بھی نہیں کیا گیا۔ چودہ دن تک وہ اسپتال میں رہے ان کے علاج کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے اور نہ کسی اعلیٰ سول اور عسکری شخصیت نے ان کی تیمارداری کی زحمت گوارا کی۔ بھارت کے ڈاکٹر عبدالکلام اور ڈاکٹر قدیر کی آخری رسوم کا موازنہ کیا جائے تو سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ 27جولائی 2015 کو ایک لیکچر دیتے ہوئے اچانک ان کا انتقال ہوا۔ بھارت کی بری، بحری اور فضائی افواج کے چاق وچو بند دستے ایک عظیم الشان الوداعی تقریب میں شیشے کے تابوت میں مکمل اعزاز کے ساتھ قومی پرچم میں لپٹی ان کی میت کو پھولوں سے آراستہ چبوترے تک لائے۔ گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ مکمل فوجی پروٹو کول کے ساتھ انہیں قبر میں اتارا گیا۔ فضائی فوج کے سربراہ اور دیگر اعلیٰ فوجی اور سول قیادت کے ساتھ ساتھ راہول گاندھی سمیت بڑے اپوزیشن لیڈر بھی اس موقع پرموجود تھے۔ مسلمانوں کے بدترین دشمن بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے ہاتھ جوڑکر پوری تکریم کے ساتھ انہیں سلامی دی، پھول رکھے، ان کی میت کے گرد چکر لگایا، دوبارہ نصف جھک کر سلامی پیش کی اور دیرتک احتراماً خاموش کھڑے رہے۔ اس کے بعد دیگر وزرا اور اعلیٰ حکام یکے بعد دیگرے ان کی قبر پرآتے اور پھول نچھاور کرتے رہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر کے جنازے میں عوام کی بڑی تعداد شریک تھی۔ اگر تدفین میں مہلت دی جاتی تو یقینا پورا پاکستان امڈ آتا۔ چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل ندیم اور آرمی چیف کے نمائندوں نے شرکت کی۔ آرمی چیف جنرل باجوہ اور بحری اور فضائی افواج کے سربراہوں کو بھی اس موقع پر موجود ہونا چاہیے تھا اور سب سے بڑھ کر وزیراعظم عمران خان کو بھی لازمی کہ وہ ریاست اور حکومت کے سربراہ ہیں۔ وہ پانچ منٹ کے فاصلے پر جنازہ گاہ سے دور موجود تھے لیکن انہوں نے شرکت کرنا گوارا نہیںکی حالانکہ یہ ایک سرکاری تقریب تھی۔ وزرا بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ سوائے مراد علی شاہ دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی موجود نہیں تھے۔ وزیراعظم عمران خان جن توہمات اور جادو ٹونے کا شکار ہیں اور جنازوں میں شرکت سے گریز کرتے ہیں وہ ان کے منصب کے شایان ہے اور نہ ایک مسلمان کو زیب دیتا ہے۔ عمران خان نے دوران علالت نہ ان کی تیمارداری کی اور نہ کوئی پیغام بھیجا جس پر ڈاکٹر عبدالقدیر نے سخت الفاظ میں ان کی مذمت کی تھی۔ جنازے کے انتظامات بھی ڈاکٹر صاحب کے شایان شان نہیں تھے۔ ایک عظیم محسن کے ساتھ اس سلوک سے ہماری قیادت نے دنیا کو کیا پیغام دیا ہے سوائے کبر وغرور اور خود بینی کے۔ ہمارے محسن بھی جس سے محفوظ نہیں۔ اپنے محسنوں کے لیے ہمارے کسی بھی انداز میں چاہت کا رنگ ہوتا ہے اور نہ وفا کا۔ ہم ایک محسن کش قوم ہیں۔ ہر ہر قدم پر ہم یہ ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔