چین تائیوان پر قبضہ کر لے گا…؟

641

چین کے تمام ہی اخبارات میں آج کل ایک کارٹون نے بڑی دھوم مچا رکھی ہے۔ کارٹون میں تائیوان کی صدر سائی انگ وین کی آنکھ پر پٹی بندھی دکھائی گئی ہے اور وہ امریکا کے پیچھے پیچھے چل رہی ہے اور آخر کار امریکا اور تائیوان دنوں کو گہرے گڑھے کے قریب دکھایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے امریکا خود اور تائیوان کو بھی زوال کے گڑھے میں دفن کرنے تیاری کر رہا ہے۔
یہ سب کچھ اُس وقت شروع ہوا جب چند دن قبل تائیوان کی فضائی دفاعی حدود میں چینی جنگی طیاروں کی مبینہ گردش کے بعد تائیوان کی صدر سائی انگ وین نے کہا کہ تائیوان بیجنگ کے دباؤ میں نہیں آئے گا اور جمہوری اقدار کا دفاع کر تا رہے گا۔ عالمی اخبارت کی رپورٹ کے مطابق خود مختار تائیوان کی 2 کروڑ 30 لاکھ آبادی کو چین کی جانب سے حملے کا مسلسل خطرہ رہتا ہے، چین کا دعویٰ ہے کہ یہ جزیزہ اس کی سرزمین کا حصہ ہے اور اگر ضرورت پڑی تو وہ ایک دن اس سے طاقت کے زور پر حاصل کرلیں گے۔ اسی سلسلے میں چین کے کم و بیش 150سے زائد بمبار طیارے تائیوان کے اندر گھس کر تائیوان کی حکومت اور عوام کو خوب خوفزدہ کرتے رہے۔ اس کے ساتھ تائیوان کے قومی دن کے موقع پر اس کی سرحد پر فوجی مشقیں کی گئیں ہیں اور اسی دوران معلوم ہوا کہ تائیوان کے آرمی چیف امریکا کے خفیہ دورے سے واپس تائیوان پہنچ گئے۔ لیکن اس کے بعد آسٹریلیا اور جاپان و بھار ت کی جانب سے تائیوان کی حمایت اعلان کر دیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے دنیا کی سُپر پاور ہونے کا دعویٰ کرنے والا امریکا کہاں غائب ہے؟ اس کا جواب نیوز ویک کو دیے گئے انٹرویو میں ولادیمیر پیوٹن نے دیا کہ ’’تائیوان چین کا حصہ ہے‘‘، TASS نیوز کے مطابق ’’ولادیمیر پیوٹن نے اُو آئی سی کامن ویلتھ کے اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکا کو وسط ایشائی ممالک کے کسی بھی ملک میں اڈے بنانے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ اس صورتحال سے یہ بات واضع ہے کہ خطے میں امریکا کو داخل ہونے لیے صرف بھارت کا راستہ ہی مل سکتا ہے جہاں چین موجود ہے۔
تائیوان کے قومی دن کے موقع پر تاریخی خطاب میں صدر سائی انگ کا کہنا تھا کہ ہم چین سے بہت دباؤ کا سامنا کر چکے ہیں۔ لیکن چین کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا تائیوان پر زور نہیں چل سکتا ہے اور تائیوان چین کی طے کردہ رستے پر نہ پہلے کبھی چلا ہے اور نہ اب چلے گا۔ تائیوان کو جمہوریت کی دفاعی لائن میں صف اول پر کھڑا ہے، ہم چین کے ساتھ تعلقات میں نرمی کی توقع کرتے ہیں اور فوری طور پر رد عمل نہیں دیں گے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تائیوان کے شہری چین کے دباؤ میں آجائیں گے۔ رائٹر کی رپورٹ کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ کے اقتدار میں دونوں ممالک کے درمیان تنازعات دہائیوں بعد عروج پر ہیں، موجودہ چینی صدر پانچ سال قبل انتخابات جیتنے پر تائیوان پر اقتصادی و سفارتی دباؤ ڈالنا شروع کیا تھا اور اسی سلسلے میں چند دن قبل چین کی جانب سے تائیوان کی تسلیم شدہ فضائی حدود (اے ڈی آئی زی) میں جوہری صلاحیت رکھنے والے بمبار طیاروں سمیت جنگی طیاروں کی پرواز کے بعد تنازعات دوبارہ بھڑک اُٹھے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ یکم اکتوبر کو تائیوان کے قومی دن کے موقع پر کم و بیش 150 سے زائد طیاروں نے تائیوان کے اطراف گشت کیا، جو ایک بڑی تعداد تھی۔ تائیوان کی وزارت دفاع کے مطابق تین چینی طیارے بشمول دو جنگی طیارے زون میں داخل ہوئے تھے۔
چین اور تائیوان 1940 میں خانہ جنگی کے دوران تقسیم ہو گئے تھے، لیکن بیجنگ دہرا رہا ہے کہ وہ اس جزیرے کے حصول کے لیے طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کرے گا۔ اس جزیرے کا اپنا آئین اور جمہوری طور پر منتخب رہنما ہیں۔ تائیوان میں تین لاکھ افراد پر مبنی فوج بھی ہے۔ چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے چین کی فضائیہ سے درخواست کی تھی کہ وہ تائیوان کو اوپر سے مانیٹر کرے اور اگر اسے نشانہ بنایا گیا تو اسے فوجی طریقوں سے انضمام مکمل کرنا چاہیے۔ دوسری جانب تائیوان نے کہا ہے کہ وہ اسی وقت حملہ کرے گا جب اس پر حملہ کیا جائے گا۔ دونوں طرف سے ان بیانات کے درمیان، چین اور تائیوان کے پاس جنگ کو ملتوی کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں کیونکہ اس جنگ میں ہزاروں لوگ مارے، معیشت برباد ہو سکتی ہے اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ایٹمی تنازعے بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
نیوز چینل بلوم برگ کا کہنا ہے کہ ان تمام خطرات کے بجائے چین تائیوان کو دوسرے طریقوں سے کنٹرول میں رکھنے کی کوششیں جاری رکھے گا۔ اس میں چین فوجی دھمکیوں، سفارتی تنہائی اور معاشی مراعات کے ذریعے تائیوان پر قبضہ کرے گا۔ حال ہی میں تائیوان میں ایکوئٹی ریکارڈ بلندیوں پر تھی۔ بہر حال یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کچھ عزائم چین کو جنگ کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ اس میں سب سے بڑی بات شی جن پنگ کا خود کو درست ثابت کرنا ہے۔ شی جن پنگ کھوئے ہوئے علاقے واپس حاصل کرکے اپنی طاقت کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف امریکا کے ساتھ بگڑتے تعلقات، ہانگ کانگ میں جاری کشیدگی اور کورونا وائرس کے حالات سے لے کر ٹیکنالوجی کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مسابقت جیسے موضوعات اس تناؤ کی وجوہات بتائے جاتے ہیں۔ پروجیکٹ 2049 انسٹی ٹیوٹ کے سینئر ڈائریکٹر ایان ایسٹن نے بلومبرگ کو بتایا جنگ سے ایک بڑا بحران دنیا کے سامنے آنے والا ہے۔
اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ چین کے حملے کی کوششیں عالمی قوتوں کی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ جس کی وجہ سے اگلے پانچ سے دس سال میں دنیا انتہائی خطرناک اور بنیادی طور پر غیر مستحکم ہونے والی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عالمی سپلائی چین کے ٹوٹنے کا خدشہ ہے عالمی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کچھ سال میں تائیوان پر قبضہ کر لے گا۔ فوجی مشقوں، ہتھیاروں کی خریداری اور اسٹرٹیجک دستاویزات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ چین تائیوان کو ایک جھٹکے میں قبضہ کرنا چاہتا ہے تاکہ امریکا کو اس کی مدد کا موقع نہ ملے۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق چین نے تائیوان کے مقابلے میں اپنی فوج پر 25 گنا زیادہ خرچ کیا ہے اور اب بیجنگ کا فوجی توازن بہت زیادہ نظر آرہا ہے۔ میزائلوں سے لے کر لڑاکا طیاروں تک ہر سطح پر چین کو زبردست برتری حاصل ہے اور اس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہیں جس کا وہ کبھی ذکر نہیں کرتا۔ اس صورتحال سے یہ بات ثابت ہے کہ ’’چین تائیوان پر چند برسوں میں قبضہ کر لے گا؟‘‘