کسی کا ہیرو کسی کا ولن

1000

پاکستان کے نامور ایٹمی سائنس دان اور محسن پاکستان کا خطاب پانے والی تاریخ ساز شخصیت ڈاکٹر عبدالقدیر خان طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے اور انہیں ہزاروں سوگواروں نے پرنم آنکھوں اور ریاست نے پورے اعزاز کے ساتھ الوداع کہا۔ ملک کے طول وعرض میں ہر دل ان کے غم میں ڈوبا ہوا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان میں عوامی سطح پر عزت واحترام کی حامل چند ایک نمایاں شخصیات میں شامل تھے۔ انہوں نے اپنی راتوں کا سکون اور دن کا آرام تج کر اس ملک کو ایٹمی قوت بنایا اور یوں پاکستان دشمن کی جارحیت کے خطرات سے آزاد ہو گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بیرونی دنیا میں ایک اچھی زندگی گزار رہے تھے اور جب ملک دولخت ہوا تو پاکستان میں اجتماعی طور پر یہ احساس پیدا ہوا کہ پاکستان روایتی ہتھیاروں اور موجودہ افرادی قوت کے ساتھ بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتا اس کے لیے ایٹمی ڈیٹرنٹ ہونا لازمی ہے۔ یہ ایک مشکل کام تھا اور اس کے لیے ذوالفقار علی بھٹو جیسے انقلابی اور بہادر انسان ہی موزوں تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے لیے جگر لخت لخت کو جمع کرنے کا بیڑہ اُٹھایا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر قدیر خان کو یورینیم افزودہ کرنے کے عظیم کام کے لیے پاکستان آنے پر آمادہ کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی شاہانہ زندگی چھوڑ کر اپنی غیر ملکی اہلیہ کو ساتھ لیا اور وطن واپسی کا رخت ِ سفر باندھا۔ اسلام آباد میں آکر وہ کہوٹا لیبارٹری میں تحقیق کے کام جُت گئے۔
پاکستان کے وسائل محدود تھے اور مغربی دنیا پاکستان کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھی۔ ڈاکٹر خان اپنے کام میں پوری دلجمعی کے ساتھ مگن اور مست رہے۔ امریکا اور مغرب کو یہ اندازہ تو تھا کہ کہوٹا کی لیبارٹری میں کچھ غیر معمولی سرگرمیاں جاری ہیں مگر کیا ہو رہا ہے؟ شاید انہیں پوری طرح اندازہ نہیں تھا۔ اسی لیے امریکا اور دوسرے مغربی ممالک کی ایجنسیاں پاکستان کے ایٹمی راز معلوم کرنے اور ان سرگرمیوں کی سُن گُن لینے کی کوششیں کرتے رہے۔ جاسوسی کے آلات پتھروں کی شکل میں کہوٹا کے گرد ونواح میں پھینکے جاتے تھے۔ ڈاکٹر قدیر خان کے خلاف بیرونی دنیا میں پروپیگنڈا زوروں پر رہا انہیں ہالینڈ کے ایٹمی راز چرانے کا ذمے دار اور سزاوار گردانا جاتا رہا۔ ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا مگر یہ مردِ مجاہد زمانے کی ہوائوںکے الٹے رخ چل کر اپنے کام میں مگن رہا۔ پاکستان کے ایٹم قوت بننے کا ابھی باضابطہ اعلان بھی نہیں ہوا تھا کہ مغربی دنیا نے پاکستان کے ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دے کر دنیا کو اس سے خوف زدہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا میں عیسائی، یہودی، ہندو، بودھ اکثریتی ملکوں کے پاس ایٹم بم تھے مگر ان میں سے کسی بم کو اس ملک کی اکثریتی آبادی کے مذہب کے ساتھ منسوب اور بریکٹ نہیں کیا گیا مگر پاکستان کا ایٹم بم دنیا کا واحد ہتھیار تھا جسے مغرب نے مشرف بہ اسلام کرکے اسلامی بم کا نام دیا گیا۔ مغرب عملی طور پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جان لینے کے درپہ بھی رہا مگر خدا تعالیٰ نے اس مرد مجاہد سے پاکستان کو دنیا کی ساتویں اور مسلمانوں کی پہلی ایٹمی طاقت بنانے کا عظیم کام لینا تھا اس لیے موت ان کی زندگی کی حفاظت کرتی رہی۔ یہاں تک کہ 1984 میں ڈاکٹر خان نے بھارت سے آئے ہوئے مشہور صحافی کلدیپ نیّر کو انٹرویو دیتے ہوئے اعلان کیا کہ پاکستان ایٹم بم بنا چکا ہے۔ یہ خبر بھارت سمیت دنیا کے بہت سے مراکز میں بجلی بن کر گری اور انہیں اپنی شکست کا احساس ہوا۔ یہی سفر 1998کے ایٹمی دھماکوں کی صورت واضح اعلان و اظہار تک پہنچا۔ جس کے بعد پاکستان کا باضابطہ شمار ایٹمی قوت رکھنے والے ملکوں میں ہونے لگا۔
مغرب نے ڈاکٹر قدیر خان اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ہمیشہ اپنے نشانے پر رکھا۔ انہوں نے پا کستان کے ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیا تو ڈاکٹر قدیر خان کو ’’ڈاکٹر نیوک‘‘ کا توہین آمیز نام دیا۔ نائن الیون کے بعد تو مغرب میں ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوا۔ ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول مسلمان ملکوں کے لیے شجر ممنوع قرار پایا۔ عراق کا ایٹمی ری ایکٹر برسوں پہلے ہی اسرائیل کے ذریعے تباہ کر ادیا گیا تھا۔ اس کے بعد لیبیا اور ایران کی جوہری توانائی کے حصول کی کوششوں کے گرد سرخ دائرہ لگا دیا گیا اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے گرد پہلے سے کھنچا سرخ دائرہ مزید تنگ کر دیا گیا۔ تھیوری یہ تھی کہ مسلمان ناخواندہ اور اُجڈ اور جنگجو ہیں۔ وہ معاشی طور پر کمزور ہیں اس لیے وہ ایٹم بم جیسی صلاحیت کے اہل نہیں ان کا مسئلہ روٹی ہے انہیں معاشی لالچ دے کر ایٹم بم جیسا مہلک ہتھیار ان کے ہاتھ سے چھین لیا جائے۔ ڈاکٹر قدیر خان پاکستان کے کامیاب ایٹمی پروگرام کی علامت، شناخت اور پہچان تھے۔ یہ الگ بات اس پروگرام کو تکمیل تک پہنچانے میں ہزاروں افراد نے اپنا کردا ر ادا کیا مگر دنیا جب اسلامی بم کا ذکر کرتی تھی تو ذہن میں واحد اُبھرنے والی تصویر عبدالقدیر خان کی ہوتی تھی۔ اس لیے مغرب نے اس علامت کو سز اد ینے کا جواز ڈھونڈنا شروع کیا تاکہ علامت پر حملے کے بعد پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو لیبیا کے ایٹمی پروگرام سے ہوا۔ جہاں ایٹمی مواد ڈرموں میں بھر کر باہر منتقل کیا گیا مگر اس کے باوجود قذافی کی جاں بخشی نہ ہو سکی اور انہیں ایک سیوریج کے پائپ سے برآمد کرکے قتل کرایا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایران کے محسن فخری زادے کے انجام سے دوچار نہ کیا جا سکا اور ڈاکٹر خان نے ایک فرضی اعتراف کر کے پاکستان پر پڑنے والے دبائو کو وقتی طور پر ٹال دیا۔ امریکا کی خواہش تھی کہ عبدالقدیر خان کو عافیہ صدیقی بنا کر مسلمان دنیا کی آنے والی نسلوں کا یہ پیغام دیا جائے کہ اس ٹیکنالوجی کے حصول کی خواہش کی قیمت کس قدر بھاری ہوتی ہے مگر وہ قدیر خان کو جدید ترین لیزر ٹیکنالوجی کے ذریعے شکار کیے جانے والے ایران کے ایٹمی سائنس دان محسن فخری زادے بنا سکے نہ اسی سال کے لیے امریکی جیل میں مقید عافیہ صدیقی۔ اتوارکی سہ پہر صرف قدیر خان ہی نہیں انتقام اور ردعمل کی اس خواہش اور خواب کی لاش بھی منوں مٹی تلے دب کر رہ گئی۔ امریکیوں کے ’’ڈاکٹر نیوک‘‘ پاکستانیوں کے محسن پاکستان مانے جاتے ہیں۔ تاریخ میں ہر عظیم انسان یونہی ہیرو اور ولن کے خانوں میں بٹا ہوتا ہے۔ وہ کسی کا ہیرو ہوتا ہے تو کسی کا ولن۔ ڈاکٹر نیوک سے محسن پاکستان تک ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ یہ ہونا کچھ عجیب نہیں تھا۔ وہ زمین کے اوپر اور اس کے اندر اپنوں کے ہیرو ہی رہیں گے۔