جنوبی ایشیا کا ایک ادھور اخواب

370

(ایسوسی ایشن آف ایسٹر اسٹیٹ آف ساؤتھ ایشیا کے بارے میں سلسلہ ٔ مضامین کا یہ پہلا حصہ ہے)
جنوبی ایشیا کا مشرقی کنارے پر بنگلا دیش اور شمال مشرقی بھارت کی ریاستیں ہیں جنہیں ’سیون سسٹرز‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان سات ریاستوں کو دہائیوں سے پسماندگی، غربت اور بڑھتی آبادی سمیت کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ان سات ریاستوں کا ذکر کم ہی سننے میں آتا ہے البتہ بنگلا دیش سے خبریں آتی رہتی ہیں لیکن وہ بھی زیادہ تر اچھی نہیں ہوتیں۔
جن علاقوں پر آج بنگلا دیش مشتمل ہے تین صدیاں قبل ہندوستان کے لیے خوراک کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ تھا اسے خطے کے لیے ’خوراک کی ٹوکری‘ بھی کہا جاتا تھا۔ بعدازاں یہاں تیزی سے آبادی میں اضافہ ہوا اور بقول ہنری کسنجر کے یہ ’مسائل کی ٹوکری‘ میں تبدیل ہوگیا۔ اٹھارہویں صدی کے وسط میں برطانیہ نے اس علاقے میں مصنوع قحط پیدا کیے۔ اس کے بعد 1942 میں بھی یہاں قحط پڑا۔ اس کے علاوہ 1954 اور 1970 میں یہاں سمندری طوفان نے تباہی مچائی۔ بنگلا دیش آج بھی ایک کے بعد دوسری آفت سے دوچار رہتا ہے۔ کبھی سیلاب تو کبھی خش سالی اور کبھی سمندری طوفان۔ اس کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی ہے۔ زمین کم ہوتی جارہی ہے اور رہنے والے بڑھتے جارہے ہیں۔ اگرچہ موجودہ قیادت نے معاشی حالات کو عمدگی سے قابو میں رکھا ہے لیکن یہ سوال اہم کہ مستقبل کیسا ہوگا؟ مسائل و وسائل کی جنگ میں کون جیتے گا؟ کیوں کہ بنگلا دیش کی نصف آبادی دس برس سے کم عمر ہے۔
خلیجِ بنگال 26لاکھ مربع کلو میٹر پر پھیلی ہے۔ اس میں کتنے ہی بڑے دریا بہتے ہیں۔ گنگا، پدما، بھرما پترا، جمنا، بارک سورما میگکھان، گوداوری، براہمانی، بیترانی، کرشنا اور کیوری وغیرہ اس میں گرنے والے دریا ہیں۔ چنئی، اینور، چٹاگانگ، کولمبو، کلکتہ ہلدیا، موگلا، پردیپ، پورٹ بلیئر، ماترباڑی، تھوتھکڈی، وسا کھاپتنم اور دھرما اس کی اہم ترین بندرگاہیں ہیں۔ اس کے علاوہ گوپال پور، ککناڈا اور پیرا جیسی چھوٹی بندرگاہیں بھی ہیں۔
برطانوی راج سے پہلے بھی بنگال کی بندرگاہوں سے مصنوعات اور اجناس برآمد ہوتی تھیں۔ ان میں چاول، گندم، شکر، افیون وغیرہ شامل تھے۔ اس کے بدلے میں بنگال میں مسائلے، کافور، پورسلین، ریشم، کھڑاؤں، ہاتھی دانت، دھاتیں اور کوڑیاں وغیرہ درآمد کی جاتی تھیں۔ کوڑیاں بنگال میں لین دین کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ سولہویں صدی میں پرتگال کی وجہ سے بنگال یورپ اور ایشیا کی باہمی تجارت کے دائرے میں داخل ہوا۔ یہ تجارتی روابط خطے کی معیشت میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ پرتگالیوں نے 1511 میں ملاکا پر قبضہ کیا تھا جس کے بعد وہ خلیج بنگال میں ہونے والی تجارت کے حصے دار بن گئے۔ اس کے بعد بنگال میں تیار ہونے والے کپڑے اور ریشم نے جنوب مغربی ایشیا اور جاپان میں مقبولی حاصل کی جس کی وجہ سے ڈچ اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنیاں بنگال کی منڈیوں میں داخل ہوگئیں۔ سولہویں صدی کے وسط تک ڈچ اور برطانویوں نے شمال مشرقی ایشیا میں مسالوں کی تجارت پر بڑھتے دباؤ کی وجہ سے ہوغلی، بالاسور اور پیپلی کے علاقوں میں کارخانے اور بستیاں قائم کرنا شروع کردیں۔ اس کے نتیجے میں جنوب مشرقی ایشیا، سری لنکا اور کرمنڈل کی منڈیوں میں بنگال کے کپڑے، ریشم، افیون، شکر کی مانگ بڑھنا شروع ہوگئی۔ اٹھارہویں صدی میں برطانیہ کی تیزی سے بڑھی نجی تجارت کے دو اہم نتائج برآمد ہوئے۔ انہوں نے ہوغلی کے بجائے بحیرہ ہند کو تجارت کا مرکز بنایا اور ڈچ کمپنیوں کی تجارتی سرگرمیوں کو کم کردیا۔ اس دور میں بنگال کے مشرقی و مغربی بحری تجارتی راستوں پر نجی تجارت کے مراکز بن گئے۔ یورپیوں اور بالخصوص برطانوی جہاز رانی کی آمد رفت بڑھی تو انہوں نے ہندوستانی تاجروں کا سامان بھی لانا لے جانا شروع کردیا۔ چین نے حال ہی میں میانمر اور بنگلا دیش میں بھاری سرمایہ کاری کرکے اس خطے میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کی کوششوں کا آغاز کیا ہے۔ بنگلا دیش کی سمندری حدود میں قدرتی گیس کے بڑے ذخائر موجود ہیں جو اس خطے کی اہمیت کو مزدی بڑھا دیتے ہیں۔
آج سے تین دہائی قبل 1990 میں اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ بنگلا دیش کے مسائل اگر صرف آبادی میں اضافہ اور قدرتی آفات ہی ہوتے تھے معاشی ترقی سے ان کا مقابلہ کیا جاسکتا تھا۔ لیکن بنگلا دیش کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارت اس کے پڑوس میں ہے جو اپنے اس غریب پڑوسی کی مدد کرنے کے بجائے یہاں اپنا رسوخ بڑھانے میں زیادہ دل چسپی رکھتا ہے۔ بنگلا دیش میں بھارت کی بلا جواز دخل اندازی سے بنگلادیشی عوام کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اپنے قیام کی دو دہائیاں مکمل کرنے کے باوجود تاحال عدم تحفظ کا شکار ہے اور یہ صورت حال اس وقت تک تبدیل نہیں ہوگی جب تک کروڑوں بنگلادیشیوں کے سر پر بھارت کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ 2013 میں چین کے بی آر آئی منصوبے نے بنگلا دیش کے لیے خطے میں نئی راہیں کھولیں۔ چین کی سرمایہ کاری سے بنگلادیش کے عوام کی حالت میں بہتری آنا شروع ہوئی۔ 2016 میں چین اور بنگلادیش نے پیدواری صلاحیت بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے اور اکتوبر کے وسط تک چین کی جانب سے دو طرفہ تعاون کے 34منصوبوں میں 24 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری آنا شروع ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے 13مشترکہ منصوبوں میں چین کی سرمایہ کاری کا حجم 13اعشاریہ چھ ارب ڈلر ہے۔ مجموعی طور 38ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبے کسی بھی ملک کی جانب سے بنگلادیش کے ساتھ مالی تعاون کے سب سے بڑی مثال ہیں۔ تاہم خدشہ پایا جاتا ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان بنگلادیش میں جاری کھیل ان معاہدوں کے نتائج کو متاثر کرسکتے ہیں۔
ان معاہدوں کے 5 برس بعد چیزیں جوں کی توں دکھائی نہیں دے رہیں۔ چین نے 2020 تک بنگلا دیش میں صرف 12کروڑ سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے۔ چین اور امریکا کی تجارتی جنگ کی وجہ سے بھی سرمایہ کاری متاثر ہوئی ہے جب کہ ویتنام میں زیادہ سازگار ماحول کی وجہ سے سرمایہ کاروں نے وہاں کا رُخ کرنا شروع کردیا۔ دوسری جانب بنگلا دیش کو جاپان میں ’نئے دوست‘ مل گئے ہیں۔ جاپانی کمپنی نپون کوئی چٹاگانگ پورٹ اتھارٹی کے ساتھ روڈ اور ہائی ویز کے منصوبوں پر کام کررہی ہے اور 2025 تک بنگلادیش کی پہلی ڈیپ سی پورٹ بھی فعال کردی جائے گی۔ یہ تبدیلیاں بنگلادیش پر بھارت کے دباؤ کا نتیجہ ہوسکتی ہیں۔ چین کے تجارتی حریف ممالک کے گروپ کواڈ کے سرمایہ کاروں نے بھی اپنے سرمائے کا رُخ چین کی جانب سے بدل لیا ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ بنگلا دیش اور بھارت میں قربت مزید بڑھ جائے۔ لیکن ان تبدیلیوں سے خطے لوگوں کے حالات نہیں بدلیں گے۔ بھارت سرمایہ کاری میں چین کی برابری نہیں کرسکتا۔ جب کہ مغربی ممالک ماضی کی طرح امدا اور گرانٹس دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ بنگلا دیش میں ایسی بندرگاہوں کی تعمیر جو اسے شمال مشرقی بھارت کے اندورنی ایشیائی علاقوں اور مغربی چین سے جوڑتی ہوئی اس تجارتی راستے کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ یہ صورت حال عام ڈگر سے ہٹ کر سوچنے کی متقاضی ہے۔