!حکمرانوں کی دولت اور اقتدار کی ہوس…

473

دولت اور اقتدار کی ہوس نے دنیا کے حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ’’پنڈورا پیپرز‘‘ کی تازہ مثال ہمارے سامنے ہے دنیا کے مختلف ممالک میں حکمرانی کرنے والے ہیڈز آف اسٹیٹ اور شاہی خاندانوں کی اعلیٰ شخصیات تک دولت حاصل کرنے کی اس دوڑ میں برابر شریک ہیں۔ اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم، متحدہ عرب امارات کے وزیراعظم، روس کے صدر ولادی میر پیوٹن، کینیا کے صدر اوہیورو کینیاٹا، یوکرین کے صدر وولو ڈومیرزیلنسکی، چیک ریپبلک کے وزیراعظم اندریج بابیس، قطری شہزادے، اور برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر۔ اِسی طرح دنیا کے دیگر 35 سربراہان حکومت کے علاوہ پاکستان کی بھی 700 کے قریب اہم شخصیات نے ’’آف شور کمپنیاں‘‘ بنا کر دولت کمائی، اِس طرح کی کمپنیاں بنانا ہرگز غیر قانونی نہیں مگر اس طرح کے کاروبار میں بھاری سرمایے کی ترسیل غلط طریقوں سے ہو، یعنی بلیک منی کو وائٹ کرنے کی غرض سے غیر قانونی حربے استعمال کرنا اور پھر ٹیکس بچانا یقینا ’’غیر قانونی ہے۔ عالمی حکمرانوں کی دولت کا اندازہ لگائیں کہ یہ لوگ اعلیٰ عہدوں پر رہ کر ہر طرح کے غیر قانونی حربے استعمال کرکے اپنی دولت میں اضافہ کرتے ہیں، پاکستان میں جن 700 کے قریب شخصیات کے نام ’’پنڈورا پیپرز‘‘ میں آئے ہیں ان کے خلاف تحقیقات کے لیے وزیراعظم عمران خان نے اعلیٰ سطح کے کمیشن کا اعلان کرکے درست اقدام کیا ہے۔ اب سوچنے کا مقام ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ شخصیات جن میں اعلیٰ و فوجی افسران کے علاوہ بعض میڈیا ہائوسز کے مالکان جب اس طرح کے کاروبار کرتے ہیں تو پھر ہمارے قومی ادارے خاموشی کیوں اختیار کیے رکھتے ہیں؟ اس کی ایک بڑی وجہ پاکستان کا موجودہ نظام بھی ہے کہ جس میں قانون کی حکمرانی جیسی بات ہی نہیں رہی ہے۔ حالت یہ ہے کہ اب عدالتوں کے فیصلے تسلیم ہی نہیں کیے جاتے، ان فیصلوں کو نہ ماننا عدالتوں کی حیثیت کو ختم کرنا ہے اور پھر عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ کروانا قومی اداروں کی کھلی ناکامی کا ثبوت ہے۔ یہ روش خطرناک حد تک پورے نظام کو ناکام ریاست کی جانب لے جارہی ہے۔ قانونی ماہرین کی رائے مقدم ہوسکتی ہے میں تجویز کرتا ہوں کہ اب پاکستان کے موجودہ حالات اس امر کا تقاضا کررہے ہیں کہ اب سرسری سماعت کی احتساب عدالتیں قائم کردی جائیں جو دن رات ہنگامی بنیادوں پر کام کریں اور ان مقدمات کے فیصلے دنوں میں کریں اور سزا یافتہ شخصیات کو قرار واقعی سزائیں بھگتنے پر پابند کریں۔ ضمانت دے کر سزا یافتہ شخصیات کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینا یہ کہاں کا قانون اور انصاف ہے؟ دنیا کے کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا، آئین پاکستان میں سخت قانون سازی کے لیے ترمیم کی جاسکتی ہے مگر اس وقت بدقسمتی سے پی ٹی آئی کے پاس پارلیمنٹ میں قانون پاس کروانے کی غرض سے اکثریت ہی نہیں اور پھر سابق حکمران جو اب اپوزیشن میں ہیں ان پر بدعنوانیوں اور مالی کرپشن کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ اپوزیشن کسی صورت میں اس قانون سازی میں حکومت سے تعاون نہیں کرے گی، جس ڈگر پر پاکستان چل رہا ہے اب ہنگامی اقدامات کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ قومی معیشت اور اقتصادیات کو سنبھالا دینا ہے تو پھر انقلابی اصلاحات لانا پڑیں گی، وہ دن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن ہوگا کہ جس دن دوبارہ ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری کی کسی شخصیت کو اقتدار میں آنے کا موقع ملے گا، ان خاندانوں کی اولادیں اقتدار میں آنے کے لیے بے چین ہیں۔ افسوس ہوتا ہے کہ جب پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما بلاول زرداری اور مریم نواز کو اپنا لیڈر مان کر ان کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ چودھری اعتزاز احسن، رضا ربانی، قمر زمان کائرہ، اسی طرح راجا ظفر الحق، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور پھر سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف شاہد خاقان عباسی کی طرح مریم نواز اور بلاول زرداری کو اپنا مستقبل کا لیڈر مانتے ہیں۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ ’’ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری‘‘ میں چار چار کا ٹولہ ایک مافیا کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ پیپلز پارٹی میں آصف علی زرداری، بلاول زرداری، فریال تالپور، آصفہ زرداری اور مسلم لیگ (ن) میں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز یہ سب کبھی ’’ن‘‘ لیگ اور کبھی ’’ق‘‘ لیگ اور مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی کے ساتھ مل کر اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں۔ ان سب میں موروثی سیاست پروان چڑھ چکی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں شاید ’’جماعت اسلامی‘‘ وہ واحد جماعت ہے کہ جس میں جمہوریت بھی ہے اور خاندانی اجارہ داری کا کوئی عنصر موجود نہیں ہے۔ 40 سال تک اقتدار میں رہنے والے حکمرانوں نے پنجاب اور سندھ میں اپنی شاہی خاندانوں جیسی حکومتیں بنا کر کبھی لندن میں اور کبھی دبئی میں بیٹھ کر کاروبار حکومت چلائے اور پاکستان کا قومی خزانہ دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور یہ دولت بیرون ملک منتقل کردی۔ ظلم تو یہ بھی ہوا کہ ان ادوار میں ایک نئی روایت قائم ہوئی کہ پاکستان کی بار کونسلوں سے وکلا حضرات جو اس حکومتی مافیا کے منظور نظر ہوتے تھے ان کو اعلیٰ عہدوں پر عدالتوں میں بطور جج لگایا جاتا رہا۔ اس سے اندازہ کرلیں کہ انصاف کی فراہمی کا کیا معیار ہے اس وقت سول سروس تباہ ہوچکی ہے ماضی کے ترقیاتی منصوبے محض نمائشی تھے اور زیادہ ترقیاتی منصوبوں میں کمیشن مافیا حاوی رہا۔ نجانے کتنے شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم جیسے لوگ کن کن کے فرنٹ مین کے طور پر کام کرتے رہے۔ ’’پاناما پیپرز‘‘ آئے کیا ہوا؟ اب ’’پنڈورا پیپرز‘‘ آئے دیکھتے ہیں اب کیا ہوتا ہے؟