کیا پاکستان میں اسلام قبول کرنا جرم ہے! (حصہ سوم)

973

ایک طویل حدیث کا مفہوم ہے : رسول اللہ ؐ نے مثال کے ذریعے سمجھایا کہ جس طرح پروانے آگ میں گر کر فنا ہوجاتے ہیں، اسی طرح تم اپنی بد اعمالیوں کے سبب جہنم کی آگ میں گرا چاہتے ہو اور میں تمہیں کمر سے پکڑ کر آگ میں گرنے سے بچا رہا ہوں، (بخاری)‘‘، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اُس نے تم پر فرمائی، جبکہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اُس نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اس کے فضل کی بدولت بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تھے (اور جہنم میںگرا ہی چاہتے تھے کہ)، اُس نے تمہیں اس سے نجات دیدی، (آل عمران: 103)‘‘۔
نیزفرمایا: ’’بیشک تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسولِ عظیم تشریف لائے، تمہارا مشقت میں پڑنا اُن پر بڑا گراں ہے، وہ(تمہارے ایمان لانے کے) شدت سے خواہش مند ہیں، مومنوں پر (تو وہ) نہایت مہربان اور رحم فرمانے والے ہیں، (التوبہ: 128)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ؐ لوگوں کے اسلام قبول کرنے کے شدت سے خواہش مند تھے، حتیٰ کہ اسلام قبول کرنے والوں کی نازبرداری فرمایا کرتے تھے، حدیث پاک میں ہے:
’’سیدنا عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں: جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی طرف رغبت پیدا فرمائی، تو میں نے نبی ؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: (یارسول اللہ!) اپنا ہاتھ آگے بڑھائیے تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت ِ اسلام کروں، جب رسول اللہ ؐ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، آپؐ نے فرمایا: عمرو! تمہیں کیا ہوا، انہوں نے عرض کیا: اسلام قبول کرنے کے لیے میری شرط ہے، آپؐ نے فرمایا: بولو! تمہاری شرط کیا ہے، کہا: میری بخشش ہوجائے، آپؐ نے فرمایا: تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام پہلے کی تمام معصیتوں کو مٹادیتا ہے، (مسلم)‘‘۔ غورکیجیے! اصولی طور پر تو رسول اللہؐ کو شرط عائد کرنی چاہیے، کیونکہ آپ اُن کی نَجات کا سامان کر رہے ہیں، لیکن آپ اسلام کی خاطر اُن کی نازبرداری فرماتے ہوئے پوچھتے ہیں: تمہاری کیا شرط ہے، آپ کی یہ ادا قرآنِ کریم کے ان مبارک کلمات کا مظہر ہے: ’’وہ تمہارے (اسلام قبول کرنے کے) شدت سے خواہش مند ہیں، (التوبہ: 128)‘‘، آپ نے اہلِ طائف کی آنے والی نسلوں کے ایمان کی خاطر انہیں اُس عذاب سے بچالیا جس کے وہ حق دار تھے، حدیث پاک میں ہے:
’’سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں: میں نے نبیؐ سے عرض کیا: کیا آپ کے اوپر کوئی ایسا دن بھی آیا جو غزوۂ اُحد کے دن سے بھی زیادہ شدید تھا، آپ ؐنے فرمایا: تمہاری قوم سے مجھے بے انتہا مصیبتیں پہنچیں، ان میں سے سب سے زیادہ سخت مصیبت وہ تھی جو مجھے طائف کے دن پہنچی، جب میں ابن عبد یا لیل سے ملا، اس نے میری خواہش کے برعکس میری دعوت کو قبول نہ کیا، میں وہاں سے غمگین حالت میں چل پڑا، پھر جب میں قرنُ الثعالب پر پہنچا تو میری حالت سنبھلی، میں نے سر اٹھا کر دیکھا: مجھ پر ایک بادل سایا کیے ہوئے ہے، پھر میں نے دیکھا کہ اس میں جبریل ہیں، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا: بے شک آپ کی قوم کا جواب اللہ نے سن لیا ہے، اللہ نے آپ کی طرف پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے تاکہ آپ انہیں ان لوگوں کے بارے میںجو چاہیں حکم دیں، پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی، مجھے سلام کیا اور کہا: اے محمد!(ؐ) آپ ان کی بابت جو چاہیں حکم دیں، اگر آپ چاہیں تو دونوں پہاڑوں کو آپس میں ملادوں (تاکہ یہ ان کے درمیان پِس جائیں)، تو نبیؐ نے فرمایا: (ایسا نہ کریں) مجھے یقین ہے: اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھیرائیں گے، (بخاری)‘‘۔ اسلام قبول کرنے کے لیے شریعت میں بلوغت شرط نہیں ہے، ذیل میں ہم ان صحابۂ کرام کی مثالیں پیش کریں گے، جنہوں نے بلوغت سے پہلے اسلام قبول کیا:
سیدنا انس بیان کرتے ہیں: ایک یہودی لڑکا نبیؐ کا خدمت گزار تھا، وہ بیمار ہوا تو آپؐ اس کی عیادت کے لیے تشریف لائے، اس کے سرہانے کی جانب بیٹھ گئے اور اس سے فرمایا: اسلام لے آئو، اس نے وہاں پر موجود اپنے باپ کی طرف دیکھا،اس کے باپ نے اس سے کہا: ابوالقاسمؐ کی بات مان لو، پس وہ اسلام لے آیا، پھر نبیؐ یہ ارشاد فرماتے ہوئے وہاں سے نکلے: ’’اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اسے جہنّم سے نجات عطا فرمادی، (بخاری)‘‘، علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں:
’’سیدنا علیؓ نے دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا، (اُسُدُ الْغَابَہ)، ’’سیدنا عمیر بن ابی وقاص قدیم الاسلام مہاجرین میں سے ہیں، جو بدر میں شہید ہوئے، نبیؐ نے کم عمر ی کی وجہ سے انہیں ابتدا میں شرکت کی اجازت نہیں دی تھی، پھر جب آپؐ بدر کے لیے روانہ ہونے لگے تو وہ رو پڑے، آپؐ نے انہیں اجازت دے دی، شہادت کے وقت ان کی عمر سولہ سال تھی، انہیں عمرو بن عبدِ وُدّ نے شہید کیا، (اُسُدُ الْغَابَہ)، ’’معاذ بن حارث بن رفاعہ انصاری صحابی ہیں، آپ کی والدہ عفراء بنت عبید بن ثعلبہ ہیں، آپ اور رافع بن مالک انصاری ہیں اور ابتدائی مسلمانوں میں سے ہیں، آپ اور آپ کے دونوں بھائی عوف اور معوَّذ بدر میں شریک ہوئے، دونوں بھائی شہید ہوئے، آپ سے کئی صحابہ نے روایات لی ہیں، معوذ بن عفراء کی والدہ کا نام عفراء ہے، وہ بدر میں شریک ہوئے اور معاذ بن عمرو کے ساتھ مل کر ابوجہل کو قتل کیا، آپ کھیتوں اور باغات والے تھے، یہ دونوں صحابہ پندرہ سال سے کم عمر میں غزوۂ بدر میں شریک ہوئے اور ابوجہل کو قتل کیا، (اُسُدُ الْغَابَہ)‘‘۔
جب نبی ؐ مدینہ منورہ تشریف لائے تو زید بن ثابت کی عمر گیارہ سال تھی اور حربِ بُعاث میں وہ سولہ سال کے تھے اور اسی موقع پر ان کے والد شہید ہوئے، آپ ؐ نے انہیں کم عمری کی وجہ سے بدر میں شرکت کی اجازت نہیں دی اور لوٹا دیا تھا، پھر یہ احد میں شریک ہوئے، (اُسُدُ الْغَابَہ)‘‘، سیدنا ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں: میں غزوۂ خندق کے دن تیرہ سال کی عمر میں رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، میرے والد میرا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور عرض کر رہے تھے: یارسول اللہ! اس کا جسم مضبوط ہے، آپؐ نے مجھے لوٹا دیا، وہ بیان کرتے ہیں: میں غزوۂ بنی مصطلق میں شریک ہوا، واقدی کہتے ہیں: ان کی عمر اُس وقت پندرہ سال تھی اور چوہتّر سال کی عمر میں ان کا وصال ہوا، (اُسُدُ الْغَابَہ)‘‘۔
محمد بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: انس بن مالک بدر کے موقع پر رسول اللہؐ کے ساتھ نکلے، ان کی لڑکپن کی عمر تھی، وہ رسول اللہؐ کے خدمت گار تھے اور جب آپؐ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو اس وقت اُن کی عمر باختلافِ روایات دس سال یا نو سال یا آٹھ سال تھی، (اُسُدُ الْغَابَہ)، ’’سیدنا علی بن ابی طالب بیان کرتے ہیں: کچھ غلام یومِ حدیبیہ کو نبیؐ کے پاس معاہدۂ حدیبیہ سے پہلے حاضر ہوئے، ان کے مالکوں نے رسول اللہ ؐ کو لکھا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! واللہ! یہ آپ کے دین میں رغبت کی وجہ سے نہیں نکلے، یہ غلامی سے بھاگنے کے لیے نکلے ہیں۔
بعض صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! انہوں نے سچ کہا ہے، انہیں لوٹا دیجیے، رسول اللہؐ غضب ناک ہوئے اور فرمایا: اے قریش! میں سمجھتا ہوں: تم لوگ اس وقت تک باز نہیں آؤ گے جب تک کہ اللہ تم پر کسی ایسے کو نہ بھیج دے جو اس (بدگمانی پر) تمہاری گردنیں مار دے، پس آپؐ نے انہیں واپس کرنے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ لوگ ہیں، (ابودائود)‘‘، یعنی رسول اللہؐ نے لوگوں کی بدگمانی کے باوجود اُن کے ظاہرِ حال کے مطابق فیصلہ فرماتے ہوئے اُن کا اسلام قبول کیا اور اُن کی آزادی کا فیصلہ فرمایا، سیدنا عبداللہ بن عمر اپنے والد سیدنا عمر فاروق کے ہمراہ بالغ ہونے سے پہلے اسلام لائے، انہوں نے اپنے والد سے پہلے ہجرت کی، آپ کم عمری کے سبب غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہوئے اور رسول اللہؐ نے دوسرے نابالغ لڑکوں کے ہمراہ آپ کو واپس بھیج دیا تھا، (اُسُدُ الْغَابَہ)، سیدنا ولید بن عقبہ اُس وقت اسلام لائے جب وہ قریب البلوغ تھے، (اُسُدُ الْغَابَہ)، نوٹ: یہاں شرعی بلوغت مراد ہے، ہمارے دور کی اٹھارہ برس سے زائد عمر کی قانونی بلوغت مراد نہیں ہے، سیدنا معاذ بن جبل نے اٹھارہ برس کی عمر میں اسلام قبول کیا، (اُسُدُ الْغَابَہ)، سیدنا زبیر بن العوام کے اسلام قبول کرنے کی عمر کے بارے میں مختلف اقوال ہیں: آٹھ سال، بارہ سال، پندرہ سال اور سترہ سال، ایک قول کے مطابق وہ اسلام قبول کرنے والے پانچویں فرد تھے، (اُسُدُ الْغَابَہ)‘‘۔
عین میدانِ جنگ میں کسی کے قبولِ اسلام کو ردّ کرنے پر رسول اللہؐ نے شدید وعید فرمائی ہے، خواہ اُس ردّ کے حق میں ظاہری قرائن بھی موجود ہوں، بخاری ومسلم کی ایک طویل حدیث کا خلاصہ ہے:
’’جنگ کے دوران سیدنا اسامہ بن زید ایک کافر پر غالب آگئے اور کلمہ پڑھنے کے باوجود اُسے قتل کردیا، نبی کریمؐ کو اس کی اطلاع ملی توآپ ؐنے فرمایا: اسامہ! کلمہ پڑھنے کے باوجود تم نے اسے کیوں قتل کردیا، انہوں نے عرض کیا: (یارسول اللہ!) اس نے توجان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا، آپؐ نے فرمایا: تم نے اس کے دل کو چیر کرکیوں نہ دیکھ لیا، کل قیامت کے دن اگر وہ کلمۂ طیبہ کی امان لے کر اللہ کی عدالت میں آگیا تو کیا جواب دو گے‘‘۔