کیوں بے مرنا ہے کیا؟

481

سواری کا لفظ سنتے ہی بے شمار سواریوں کے نام ذہن میں آجاتے ہیں۔ مثلاً کار، بس، ہوائی جہاز، پانی کا جہاز، اسکوٹر، بائیک، سائیکل، چنگ چی، رکشہ وغیرہ وغیرہ۔ اب ان میں کچھ سواریاں تو اڑنے والی ہیں۔ کچھ سمندر یا دریا پر تیرنے والی ہیں باقی سب زمین پر چلنے والی سواریاں ہیں۔ جہاں تک ہوائی سواری کا تعلق ہے وہ اکثر لوگوں کی دسترس سے باہر ہے۔ اسی طرح پانی پر چلنے والی سواریاں بھی کم ہی استعمال ہوتی ہیں۔ ہاں البتہ زمین پر چلنے والی سواریاں لا تعداد وبے شمار ہیں۔ ان کا استعمال بھی سب سے زیادہ ہے۔ زمینی سواریوں پر آج ہم گفتگو کریں گے ایک ایسی سواری کے بارے میں جو سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ آسان اور سستی ہونے کے ناتے ہر کس و ناکس کی دسترس میں بھی ہے۔ اکثر اس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شاید ہم موت کے کنویں یا موت کے گولے کا منظر دیکھ رہے ہیں۔ اور آنکھوں کے سامنے ’’موت کا منظر‘‘ اور ’’مرنے کے بعد کیا ہوگا‘‘ جیسی کتابوں کے حوالے گھومنے لگتے ہیں۔ اس کے برعکس سواری کا پائلٹ بالکل بے فکر ہوتا ہے۔ کبھی ناگن کی طرح بل کھاتا ہے اور ہم اپنی سواری ایک طرف کرلیتے ہیں کہ کہیں یہ ہمیں ہی نہ ڈس لے۔ کبھی گاڑی کے پیچھے سے کِس کا خطرہ ہوتا ہے۔ کبھی چلتی گاڑی کے سامنے سے ایسے اوور ٹیک کرتے ہیں کہ اب ٹکر ہوئی کہ جب ٹکر ہوئی۔ بعض اوقات تو ان کا بس نہیں چلتا کہ گاڑی کے اوپر یا نیچے سے نکل جائیں۔ اکثر ہمارے گاڑی کے سائڈ مرر انہیں لوگوں کی اعلیٰ کارکردگی کا نشانہ بن جاتے ہیں اور ہم منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
اف اللہ ہم تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ اور اگر غلطی سے کچھ کہہ دیا تو دو باتیں ہوں گی یا تو اگر پائلٹ صاحب کوئی شریف آدمی ہوئے تو انگریز کو دعا دیتے ہوئے سوری کہہ کر نکل لیں گے۔ چاہے ان کی سوری کی وجہ سے ہمارا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے۔ بصورت دیگر الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے وہ ہم پر ہی چڑھائی کردیتے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ کہ ایسے موقع پر ان کی قبیل کے سارے لوگ ان کی حمایت میں جمع ہوجاتے ہیں۔ اور مجبوراً خون کے گھونٹ پی کر اپنی ہی غلطی مان کر جان چھڑانے میں عافیت ہوتی ہے۔ بعض اوقات تو یہ لوگ اتنی تیزی میں ہوتے ہیں کہ لگتا ہے کہ ان کے پیچھے پولیس لگی ہوئی ہے اور یہ کوئی سنگین جرم کرکے بھاگ رہے ہیں۔ اکثر تو عمر اور قد میں اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ یا تو ان کی ٹانگیں ہوا میں معلق ہوتی ہیں یا ان کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تو در کنار شناختی کارڈ بھی نہیں ہوتا۔ بیش تر کے پاس تو دیگر کاغذات بھی نہیں ہوتے۔ بہت سے تو اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ گماں ہوتا ہے کہ ان کی پیدائش بھی اسی سواری پر ہوئی ہے۔ اگر کبھی ان کے والدین سے شکایت کی جائے تو والدین ایسی کمال بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ جس سے شک ہوتا ہے کہ یہ اس بچے کے والدین بھی ہیں یا نہیں۔ مگر جب خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوجائے اور یہی بچہ موت و زندگی کی کشمکش میں کسی اسپتال میں زیر علاج ہو تو سر پکڑ کر روتے ہیں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم ٹی وی پر مرحوم ڈاکٹر محمد علی شاہ کا انٹرویو دیکھ رہے تھے جو ہڈیوں کے ماہر ڈاکٹر تھے اور اے او کلینک کے مالک بھی۔ کہنے لگے کہ ’’ایسے جتنے بھی مریض میرے پاس آتے ہیں تو میں شفایاب ہونے کے بعد ان کا انٹرویو کرتا ہوں اور مجھ سے 95 فی صد سے زیادہ مریض یہ اعتراف کرتے ہیں کہ غلطی ان ہی کی تھی۔ کوئی کہتا ہے وہ ون ویلنگ کررہا تھا۔ کوئی اعتراف کرتا ہے کہ وہ رونگ سائڈ تھا۔ کوئی اوور اسپیڈ کا رونا روتا ہے تو کوئی زگ زیگ چلانے کی کہانی سناتا ہے۔ اکثریت تو سگنل توڑنے کی مرتکب پائی جاتی ہے‘‘۔ البتہ ایک بڑی زبردست خوبی اس میں یہ ہے کہ یہ ملٹی پرپز سواری ہے۔ آپ اس پر سنگل ڈبل ٹرپل بلکہ اس سے بھی زیادہ سواریاں بٹھا سکتے ہیں۔ اکثر دودھ والے اس کے چاروں طرف دودھ کے کنستر لٹکا کر چلتے نظر آتے ہیں۔ عید قربان پر اکثر دیکھا گیا کہ قربانی کا جانور بھی اس سواری کا مزہ لے رہا ہوتا ہے۔ یہاں تک ہم ایک ایسا منظر دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ جب ہم نے بھائی لوگوں کو اس پر اونٹ لیجاتے دیکھا۔ کئی دفعہ آنکھیں ملیں اور اپنے ہی چٹکی کاٹی مگر منظر نہ بدلا لہٰذا یقین کرتے ہی بن پڑی۔ کبھی کوئی منجھی رکھے لے جارہا ہوتا ہے۔ تو کوئی لمبی سے سیڑھی گھسیٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ بعض اوقات تو اس پر اتنی ساری چیزیں چاروں طرف لدی ہوتی ہیں کہ اصل سواری کا ہی پتا نہیں چلتا۔ اصل مزہ تو جب آتا ہے جب حضرت اپنی ہی بیگم کو مع چھ عدد بچوں کو لیکر سسرال عیدی لینے جارہے ہوتے ہیں۔ اکثر مختلف حکومتی پریڈ یا تقریبات میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں کا ایک مینار سا اس پر سواری کررہا ہوتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ کرتب بھی دکھارہا ہوتا ہے۔ اکثر میلوں میں اس کو موت کے گولے یا موت کے کنویں میں بھی اٹکھیلیاں کرتے دیکھا جاسکتا ہے مگر جب اسی کا ایکشن ری پلے نوجوانوں کو سڑکوں پر کرتا دیکھتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
ایک اور خوبی یا نفسیات ان لوگوں کی یہ ہوتی ہے کہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کو کہیں بھی، کبھی بھی اور کسی بھی حالت میں اپنی سواری کو روکنا نہ پڑے چاہے اس طرح کسی دوسری گاڑی کو ٹکر ہی کیوں نہ ماردیں۔ ان کا دل کرتا ہے کہ گھر سے روانہ ہونے سے لیکر واپسی تک یا منزل مقصود تک سواری کو بریک نہ لگانا پڑے بھلے اس چکر میں یہ خود یا کسی دوسرے کو اسپتال ہی کیوں نہ پہنچا دیں۔ دیگر یہ کہ اگر سواری بند ہوجائے تو کبھی بھی کنارے پر نہیں کریں گے بلکہ ہمیشہ ڈھیٹ بنے وہیں کھڑے کھڑے اسٹارٹ کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے چاہے اس طرح پورے شہر کا ٹریفک جام ہی کیوں نہ ہوجائے۔ ایسے میں دیگر لوگ صبر اور خون کے گھونٹ پینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس خاکسار نے اس سواری کو نہ صرف خود کبھی استعمال نہیں کیا بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس سے دور رکھا۔ اور آئندہ نسلوں کو بھی وصیت کردی کہ بیٹا جہاز اڑا لینا مگر اس بے پیندے کے لوٹے سے پرہیز کرنا۔ البتہ یہ خوبی تو اس میں ہے کہ یہ پٹرول سونگھ کر چلتی ہے اسی لیے کم خرچ اور بالا نشین ہے۔ بلکہ اب تو آلودگی سے پاک۔ یعنی نہ دھواں نہ ہی شور۔ الیکٹرک سے چلنے والی بھی مارکیٹ میں آگئی ہیں۔ کہنے کو تو یہ غریبوں کی سواری ہے مگر اس نے ہمیشہ امیروں کو مات دی ہے۔ اب اس سے زیادہ کارکردگی کون سی سواری دکھاسکتی ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ خاکسار نے ساری جزیات اور تفصیلات بیان کردیں مگر سواری کا نام نہیں بتایا۔ تو میرے بھولے قارئین کچھ کام خود بھی کرلیا کریں سارا ملبہ ہم پر نہ ڈا لیں۔ ویسے بھی اس مضمون پر ہمارے صاحبزادہ ٔ خرد نے شرط لگائی تھی کہ ایسا لکھیں کہ سواری کا نام نہ آنے پائے کیونکہ آپ کو بھی سڑک پر نکلنا ہے اور ہم آپ کو کسی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ لہٰذا اب فیصلہ آپ پر ہے کہ ہماری کوشش کس حد تک کامیاب ہوئی ہے۔ آپ چاہیں تو ہمیں سو فی صد نمبر دیکر بیٹے کی نظر میں سرخ رو کرسکتے ہیں۔
ایک سیانے کا قول ہے کہ”It is better to late than never” یعنی یہ بہتر ہے کہ آپ منزل پر تاخیر سے پہنچیں بہ نسبت اس کے کہ آپ کبھی پہنچیں ہی نہیں۔ جب سے ہمیں اس قول کا علم ہوا ہے ہم نے گرہ سے باندھ لیا ہے کہ چاہے کتنی ہی دیر کیوں نہ ہوجائے ہم منزل پر پہنچ کر ہی دم لیں گے یعنی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے۔ لہٰذا اب حال یہ ہے کہ جب تک پچھلی گاڑی ہارن نہ دے ہم آگے بڑھ کر نہیں دیتے خاص طور پر اس وقت جب کہ پچھلی گاڑی کوئی خاتون چلارہی ہوں۔ کیونکہ خاتون سے ٹکرانا جان سے جانا ہے۔ ایک تو سارے لوگ فوراً بھائی بن کر ان کی حمایت میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دوسرے خاتون سے ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ جس طرف مڑنے کا اشارہ دیں کہیں اسی طرف نہ مڑجائیں۔ ویسے ہم جیسے شرفاء آج تک عورت کا اشارہ نہیں سمجھ سکے اور اسی میں ساری عمر ضائع کردی۔ کاش کہ ہم نے شروع ہی میں اشاروں کی زبان سیکھ لی ہوتی تو آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا اور ہم بھی تیز ترین ڈرائیور ہوتے۔ خیر یہ اپنی اپنی قسمت ہے اور قسمت تو کاتب تقدیر کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ چلتے چلتے ایک لطیفہ بھی سنتے جائیں۔ اللہ بھلا کرے گا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک صاحب ریس لگاتے ہوئے دو ٹرالروں کے بیچ سے انتہائی خطرناک دائو پیچ کرتے ہوئے آگے نکل گئے اور پلٹ کر ٹرالر کے ڈرائیوروں سے فرمایا۔ ’’کیوں بے مرنا ہے کیا؟‘‘۔