نئی سرد جنگ کے قتیل

836

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس شروع ہوگیا ہے اور دنیا بھر کے سربراہان مملکت اور نمائندے اس عالمی فورم پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ دنیا میں ایک سرد جنگ بہت تیزی سے اُبھر رہی ہے اور یہ ماضی قریب کی سرد جنگ سے زیادہ سنگین اور ہمہ پہلو ہے۔ کمیونسٹ اور مغربی بلاک میں جنگ کا یہ دور ختم ہوئے تین عشرے گزر گئے ہیں اور ان تین عشروں میں دنیا مادی ترقی میں زمین سے ثریا تک پہنچ چکی ہے۔ ہتھیاروں میں جدت آچکی ہے۔ ان کے ذخائر میں اضافہ اور تیاری میں تیزی آچکی ہے۔ پروپیگنڈے کا زیادہ جدید اور موثر ہتھیار ایک باقاعدہ نظام کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ خلائوں میں انسان کا کنٹرول اور موجودگی غیر معمولی طور پر بڑھ چکی ہے۔ اپنی پسند کے ظالم اور پسند کے مظلوم، انسانی حقوق کے تصورات، آزادیوں کی ضرورت اور وکالت سمیت پوری ذہنیت دوسری سرد جنگ میں منتقل ہو چکی ہے۔ مطلب یہ کہ آپ کے مخالف کے انسانی حقوق کسی طور جانوروں سے بھی کم تر ہیں اور آپ کے پسندیدہ اور چنیدہ لوگوں کے انسانی حقوق مقدس اور قابل احترام ہیں۔ جمہوریت اور شہری آزادیاں بھی وہیں قبول اور گوارا ہیں جہاں آپ کے ناپسندیدہ چہرے اقتدار میں ہوں اور ان نعروں کے ذریعے کلائی مروڑنے کا کام لینا مقصود ہو۔ نوبیل انعام اور مس ورلڈ کے اعزازات بھی اسی سوچ کے زیر اثر تقسیم کیے جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کا قاتل بھی وہی ہے جو آپ کا ناپسندیدہ ہے اور جو لاڈلہ ہے اس کا ہر جرم قبول اور گوارا ہے۔ آپ کے لیے جمہوریت کا مستحق بھی وہ معاشرہ ہے جو آپ کے سانچے سے باہر ہے جو اس سانچے حصہ ہے اس کی آمریت اور شخصی حکومت بھی قبول ہے۔ مغربی بلاک ان تضادات کا مجموعہ ہو کر رہ گیا ہے۔
ایک طرف مغربی بلاک ہے جو پہلے سے دنیا میں طاقت اور فیصلہ سازی کے مراکز پر قابض ہے بلکہ ان اداروں کی تراش خراش ہی اس تصور پر ہوئی ہے کہ مغرب کا پلہ بھاری رہے۔ دوسری طرف ایشیا میں ایک دوبڑی طاقتیں روس اور چین مغربی بلاک کو چیلنج کر رہے ہیں۔ یہ پرانے ورلڈ آرڈر کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان اس کھیل کا تیسرا اہم کھلاڑی ہے۔ پاکستان مدتوں مغربی بلاک کا حصہ رہا ہے۔ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ برطانیہ کی تخلیق اور تربیت یافتہ تھی اور قیام پاکستان کے بعد یہ امریکا کے زیر اثر آگئی اور یوں یہ دوستی مدتوں چلتی رہی۔ سرد جنگ کے بعد دوستی اور تعلق کی اس دیوار میں دراڑ یں اُبھریں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی چلی گئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوویت یونین کے بعد مغربی بلاک نے چین کو اپنے نشانے پر لے لیا اور چین کا قافیہ تنگ کرنے کے لیے سب سے قریبی ملک کے طور پر بھارت کی اہمیت بڑھ گئی۔ مغربی بلاک نے چین دشمنی میں اپنا سارا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا۔ علاقائی ممالک کو بھارت کے ساتھ تعاون اور اطاعت کی زنجیر میں باندھنے کا راستہ اپنایا گیا تو پاکستان کے پاس مغربی بلاک سے اپنا راستہ الگ کرنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہ رہا۔ مغرب نے پاکستان کے لیے چین یا بھارت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا رویہ اپنایا اور یہاں پاکستان کے پاس چین کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔ اس تقسیم کے خدوخال اب بڑی حد تک واضح ہوچکے ہیں۔
چین اور امریکا کے درمیان سرد جنگ بہت تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے اور کئی ممالک اس کراس فائر میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ اس نئی سرد جنگ میں ملکوں کے لیے غیر جانبداری کی گنجائش کم ہی رہ گئی ہے۔ یہ سرد جنگ اس حد تک بڑھ رہی ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونی گوترس کو کہنا پڑا کہ چین اور امریکا سرد جنگ ختم کرکے تعاون کا راستہ اپنائیں۔ جو بائیڈن نے اپنی تقریر میں جن مظلوموں کی حمایت کا عندیہ دیا وہ کشمیری یا فلسطینی ہرگز نہیں تھے بلکہ ان کا اشارہ اویغور مسلمانوں کی طرف تھا اور اویغور مسلمانوں سے بھی مغرب کی دلچسپی کی وجہ فقط یہ ہے کہ اس سے چین کی کلائی مروڑی جا سکتی ہے۔ بائیس سال پہلے ایک عسکری تنظیم حرکت الانصار کے سربراہ نے پریس کانفرنس میں انکشاف کیا تھا کہ امریکا ہم سے اس لیے ناراض ہوگیا ہے کہ وہ ہم سے چین میں جہاد کا مطالبہ کرتا تھا۔ نئی سرد جنگ کے قتیل اس بار بھی وہ مظلوم لوگ ہوں گے جو مغربی کے چہیتے ملکوں کے مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اس طرح نئی سردجنگ میں انسانوں اور انسانی حقوق کی تشریح بھی نئے سرے سے ہونے جا رہی ہے۔ امریکا کے لیے انسان وہی ہیں جو مخالف بلاک میں مظالم کا شکار ہیں اور حقوق بھی انہی کے فائق اور محترم ہیں۔ انسانی حقوق کی یک طرفہ اور یک رخی تشریح اور تصور نے بہت سے تصورات اور امکانات کو بدل دیا ہے۔ ان حالات میں کشمیر پر مغربی بلاک سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ مغرب میں توانائیاں ضائع کرنے کے بجائے اب میدان عمل ہی میں پوزیشنیں مضبوط کرنے کی تیاری کرنا بہتر ہے۔