اور آخر کار چیخیں نکال دی گئی

1031

پہلی بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم عمران خان کو شاید اب یہ یقین ہوگیا ہے کہ ماضی میں خان صاحب جن کرپٹ نااہل حکمرانوں کی چیخیں نکالنے کے دعوے کیا کرتے تھے وہ تو ملک سے فرار کرادیے گئے اور جو باقیات ملک میں ہے وہ ضمانتوں پر سیاسی میدان میں مصروف ہیں، ساتھ ہی ریاستی اداروں اور عدالتوں کی مسلسل خاموشی بھی لمحہ فکر ہے۔
میں ان کو کسی صورت این آر او نہیں دوں گا کا دعویٰ دم توڑ گیا، خان صاحب اپوزیشن جماعتوں سمیت اپنے کرپٹ ساتھیوں کو این آر او دے چکے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ہم شفاف ٹھوس شواہد کی بنیاد پر احتساب کے ذریعے کرپٹ عناصر کو سلاخوں کے پیچھے دیکھ رہے ہوتے مگر تین سال میں نہ سزائیں ہوسکیں اور نہ ہی ملک ترقی وخوشحالی کی جانب گامزن ہو سکا۔ غریب متوسطہ طبقہ ماضی میں بھی مہنگائی کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا اور آج وہ مہنگائی کے تلے دب کر مررہا ہے مگر خان صاحب گھبرانا نہیں ہے کے چورن سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ ماضی میں ملک پر چور نااہل کرپٹ سیاسی خاندانوں کا راج تھا، غریب اپنے مسائل کے نیچے پس رہا تھا، ملک ترقی وخوشحالی کی جانب گامزن نہیں ہو پا رہا تھا، منافع بخش ادارے تباہی کا منظر پیش کر رہے تھے، کرپشن عروج پر تھی، یقینا ان تمام باتوں میں حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مگر سوال یہ ہے کہ آج ایسا کیا ہورہا ہے جس سے ہم ماضی اور مستقبل کے فرق کو محسوس کر سکیں یقینا تین سال میں غریب عوام نے مہنگائی میں ہوش رُبا اضافے کا ایسا فرق محسوس کیا ہے کہ ان کو ماضی کا کرپٹ نظام یاد آگیا ہے عوام آج رو رو کر کرپٹ نظام کی بحالی کی فریاد کر رہے ہیں۔
کیوں کہ وزیر اعظم عمران خان تین سال میں نہ ہی کرپٹ نظام کا خاتمہ کر سکے ہیں اور ناہی مہنگائی میں کمی لا کر عوام کو ریلیف فراہم کر سکے ہیں۔ ہماری نظر میں اگر خان صاحب دو کاموں میں سے ایک بھی کام تین سال میں انجام دے دیتے تو شاید آج اتنا ہنگامہ برپا نہ ہوتا یا تو خان صاحب کرپٹ عناصر کی سزائوں کو ممکن بنا کر ان کو جیلوں میں ڈالتے یا پھر غریب متوسطہ طبقے کو مہنگائی کے جن سے آزادی دلاتے مگر افسوس کہ خان صاحب دونوں کاموں میں سے کوئی کام انجام نہیں دے سکے۔ یقینا کوئی دو رائے نہیں کہ قوموں کی زندگیوں میں تبدیلی راتوں رات نہیں آتی اور بہتر موثر نظام کی بحالی میں وقت لگتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اچھا کام ہوتا نظر آتا ہے بد قسمتی سے ایسا کچھ نظر نہیں آرہا، ہم بہتر نظام کی اُمید کیسے رکھیں؟ خان صاحب کو اگلے عام انتخابات میں جانے سے پہلے یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ آخر تین سال کی اس ناکامی کے پیچھے کیا وجوہات ہیں جنہوں نے تبدیلی اور نئے پاکستان کا جنازہ نکل دیا۔ ہماری نظر میں خان صاحب کی ناکامی کی چند وجوہ یہ ہیں کہ محترم وزیر اعظم سب سے پہلے تو اپنی باتوں اپنے دعوئوں کا مکمل دفاع نہیں کر سکے، تبدیلی سے یوٹرن کا سفر خان صاحب نے اپنے اقتدار کے پہلے ہی سال پورا کر لیا، اپنے ہی گھر سے احتساب شروع کرنے کا دعویٰ پانی پانی ہوگیا، دوائی چور، چینی چور، آٹا چور اور ترقیاتی کاموں میں کرپشن کے اسکینڈل پر خان صاحب کی مسلسل خاموشی نے احتساب کی اُمید پر پانی پھر دیا۔ جہانگیر ترین، ڈاکر ظفر مرزا، اجمل کیانی، زولفی بخاری سمیت کرپشن میں ملوث افراد کو اور آپ کے اقتدار کے اتحادی چودھری برادران خسرو بختیار کو این آر او کس نے اور کیوں دیا احتساب انصاف کے عمل کو شفاف غیر جانبدار بنانے کے لیے آپ نے کیا کوشش کی، تمام صوبوں کو برابری کا درجہ دینے کے بجائے خاص کر وہ شہر جو پاکستان کی کفالت میں سب سے زیادہ حصہ ڈالتا ہے اس کو مزید محرومیوں کی جانب دھکیلا گیا صحت کارڈ کامیاب جوان پروگرام تمام تر حکومتی اسکیموں سے اس شہر کو محروم رکھا گیا اس شہر کو کرپٹ نااہل افراد کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا، غریب عوام کو تین سالہ دو اقتدار میں کوئی ریلیف فراہم نہیں دیا گیا، ماضی میں مہنگائی مہینوں میں بڑھتی تھی آج وہ مہنگائی گھنٹوں میں بڑھ رہی ہے اور وزیر اعظم سب اچھا ہے کا راگ الآپ رہے ہیں جس طرح اپوزیشن کو ناکام بنانے میں اپوزیشن ہی کا اہم کردار ہے بالکل اُسی طرح حکومت کو ناکام بنانے میں حکومت کا اہم کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اب خان صاحب کے اقتدار کا وقت ختم ہوا چاہتا ہے کیوں کہ اگلا سال الیکشن کا سال سمجھا جاتا ہے جس کی تیاریاں دونوں جانب سے شروع ہوگئی ہیں الیکشن میں الیکٹرونک ووٹنگ مشن کا لانا شفاف الیکشن کی جانب اہم قدم ہے مگر اس اقدام میں جب تک تمام سیاسی جماعتوں کی سنجیدہ رضا مندی شامل نہیں ہوگی اُس وقت تک ہم شفاف الیکشن سے محروم رہیں گے، ساتھ ہی قوم وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے التجا کر رہی ہے کہ خدارا مہنگائی کے جن پر قابو پائیں کورونا سے زیادہ یہ قوم مہنگائی وبے روزگاری سے پریشان ہے۔ گھروں میں رہیں ویکسین لگائیں کا گیت سنانے کے لیے ہر ہفتے ایک پریس کانفرنس کی جاتی ہے مگر مہنگائی میں کمی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے اس لیے اس پر کوئی پریس کانفرنس نہیں کی جاتی جو اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ حکومت مہنگائی کو روکنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے، کرپٹ نااہل لوگوں کی چیخیں نکالنے کے بجائے غریب عوام کی چیخیں کیوں نکالی جارہی ہیں۔