سید گیلانی… ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی!(4)

639

یہ تاثر جماعت اسلامی کی پُرامن سیاسی اور تحریکی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب کرسکتا تھا۔ اس لیے جماعت کی قیادت نے فوری طور پر مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کرکے اس تاثر کی نفی کی اور حزب المجاہدین سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ بعد میں جب یوسف شاہ المعروف سیّد صلاح الدین حزب المجاہدین کے سربراہ بنے تو انہوں نے یہ وضاحتی بیان جاری کیا کہ حزب المجاہدین کسی جماعت کا عسکری بازو نہیں ہے بلکہ وہ پوری ملت اسلامیہ کشمیر کی نمائندہ عسکری طاقت ہے اور اس میں ہر مکتب فکر کے نوجوان شامل ہیں۔ سیّد علی گیلانی برملا اس رائے کا اظہار کرتے تھے کہ بھارت کے غیر جمہوری اور پُرتشدد رویے نے کشمیری نوجوانوں کو عسکریت پر مجبور کیا ہے۔ اب ان کے سامنے بھارت کے خلاف مسلح مزاحمت کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ گیلانی صاحب نے محسوس کیا کہ مسلح مزاحمت کو سیاسی حمایت فراہم کرنا بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر مسلح مزاحمت کا وزن پیدا نہیں ہوسکتا۔ چناں چہ سید علی گیلانی نے انتہائی سوچ بچار اور دوستوں سے مشورے کے بعد جماعت اسلامی سے ایک معاہدے کے تحت علاحدگی اختیار کرلی اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں کشمیر ہائی کورٹ کے نامور وکیل میاں عبدالقیوم حریت کانفرنس کے چیئرمین اور اشرف صحرائی سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے لیکن بعد میں جب حریت کانفرنس کی کارروائیوں میں اختلافات پیدا ہوئے تو حریت کانفرنس کا سب سے موثر دھڑا سید علی گیلانی کی قیادت میں الگ ہوگیا اور گیلانی صاحب اس کے چیئرمین قرار پائے۔
1990ء کا اوائل تھا کہ سید علی گیلانی 9 اپریل کو پھر گرفتار کرلیے گئے۔ یہ بھارتی استعمار کے ہاتھوں ان کی نویں گرفتاری تھی۔ 1990ء سے شروع ہونے والے دور اسیری کی روداد گیلانی صاحب نے ’’روداد قفس‘‘ کی دو جلدوں میں بیان کی ہے، جب کہ تیسری جلد کا مسودہ بھارتی حکومت نے ضبط کرلیا تھا اس لیے تیسری جلد شائع نہ ہوسکی۔ گیلانی صاحب جیل ہی میں تھے کہ مقبوضہ کشمیر کے گورنر جگ موہن نے 16 اپریل 1990ء کو ایک آرڈر کے ذریعے جماعت اسلامی، حزب المجاہدین اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ سمیت 8 تنظیموں پر پابندی لگادی اور ان کے لیڈروں اور کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری شروع ہوگئی۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب حزب المجاہدین کے سربراہ سیّد صلاح الدین گرفتاری سے بچنے کے لیے ہجرت کرکے آزاد کشمیر آگئے۔
متحدہ مسلم محاذ نے 1987ء کے انتخابات میں بھارت اور کٹھ پتلی کشمیر حکومت کی شدید غنڈہ گردی اور دھاندلی کے باوجود ریاستی اسمبلی میں جو 4 نشستیں حاصل کی تھیں انہیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا اور سید علی گیلانی کو بطور پارلیمانی لیڈر اسمبلی میں اپنے فرائض انجام دینے کی ہدایت کی۔ اگر انتخابات صاف اور شفاف انداز میں ہوتے تو مسلم محاذ کی سو فی صد کامیابی یقینی تھی، ایسی صورت میں منصوبہ یہ تھا کہ ریاستی اسمبلی ایک قرار داد کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی منظوری دیتی اور بھارت سے مطالبہ کیا جاتا کہ وہ فوری طور پر ریاست سے اپنی فوجیں واپس بلائے اور منتخب نمائندوں کو ریاستی نظم و نسق سنبھالنے کا موقع دے۔ چوں کہ ایسا ممکن نہ ہوسکا اور بھارت نے پوری قوت کے ساتھ اس پُرامن انقلاب کو ناکام بنادیا، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ ریاستی اسمبلی میں جتنی بھی نمائندگی میسر آئی ہے اسے ضائع نہ کیا جائے اور اس کے ذریعے اسمبلی میں پوری شدت کے ساتھ بھارتی مظالم کو بے نقاب کیا جائے اور کشمیری عوام کے ان جذبات کی ترجمانی کی جائے کہ وہ بھارت کی غلامی سے نجات حاصل کیے بغیر مطمئن نہیں ہوں گے۔ سید علی گیلانی کا یہ پسندیدہ موضوع تھا۔ انہوں نے مسلم محاذ کے پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے اسمبلی میں جب بھی موقع ملا اس موضوع پر جذبات سے لبریز خطاب کرکے ایوان پر لرزہ طاری کیے رکھا۔ عسکریت نے زور پکڑا اور مجاہدین کی کارروائیاں تیزی سے بڑھنے لگیں تو اسمبلی کا وجود ہی بے معنی ہو کر رہ گیا۔ چناں چہ سید علی گیلانی اور ان کے ساتھی ارکان نے اسمبلی سے استعفا دے دیا اور گیلانی صاحب کی ساری توجہ حریت کانفرنس کو فعال بنانے اور مجاہدین کو سیاسی اور اخلاقی حمایت فراہم کرنے پر مرکوز ہوگئی۔ انہوں نے عوامی اجتماعات میں حریت کانفرنس کا موقف پیش کرتے ہوئے عوام کو بتایا کہ پے در پے انتخابات کے نتائج نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان نام نہاد انتخابات سے قومی جذبات کی ترجمانی نہیں ہوتی۔ یہ ایسی دھوکا دہی کی واردات ہے جس پر آنسو بہانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس لیے حریت کانفرنس انتخابی عمل اور انتخابی سیاست کا بائیکاٹ کرتی ہے اور اس کی ساری توجہ اس بات پر ہے کہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے۔ اگر انہیں یہ حق پُرامن طریقے سے نہیں تھا تو وہ مسلح جدوجہد کے ذریعے یہ حق حاصل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ مقبوضہ ریاست میں جاری مسلح جدوجہد کا سیاسی اخلاقی اور قانونی جواز موجود ہے اور اسے کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔
چناں چہ 1996ء کے ریاستی انتخابات کا حریت کانفرنس کی اپیل پر کشمیری عوام نے بڑے پیمانے پر بائیکاٹ کیا۔ پولنگ اسٹیشن ویران اور سنسان پڑے رہے لیکن فوج، پولیس اور انتظامیہ نے مل کر اپنی مرضی کے نتائج مرتب کرلیے اور کٹھ پتلی حکومت قائم کردی گئی۔ سید علی گیلانی نے حکومت کے خلاف بھرپور احتجاج کی کال دی اور حکومت کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس طرح حکومت اور عوام کے درمیان محاذ آرائی مزید شدت اختیار کرگئی۔ اس سے پہلے 1995ء میں چرار شریف کے سانحے نے حالات کو حد درجہ مخدوش بنادیا تھا۔ اس سانحے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ مجاہدین چرار شریف کے جنگلات میں پناہ لیے ہوئے تھے اور وہاں سے نکل کر قابض بھارتی فوجوں پر حملہ آور ہوتے تھے۔ یہ معرکہ آرائی روز کا معمول بن گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ مختلف علاقوں سے آئے ہوئے تقریباً تین سو مجاہدین نے جنگلات کی پہاڑیوں پر پوزیشنیں سنبھال رکھی تھیں اور وہ وہاں سے بھارتی فوجیوں کو نشانہ بنارہے تھے، جب کہ فوج نے پورے جنگل کا محاصرہ کر رکھا تھا، جوں جوں معرکے میں شدت آتی گئی، بھارتی فوج نے گردونواح کی بستیوں میں عام لوگوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ مجاہدین کو جب علم ہوا کہ بھارتی فوج بے گناہ لوگوں پر ظلم ڈھا رہی ہے تو وہ پہاڑیوں سے اُتر کر درگاہ چرار شریف میں مورچہ زن ہوگئے، جہاں ممتاز صوفی بزرگ شیخ نور الدین نورانی کا مزار مرجع خلائق تھا۔ جب اخبارات میں چرار شریف کے معرکے کی خبریں شائع ہوئیں اور لوگوں کو معلوم ہوا کہ مجاہدین نے درگاہ چرار شریف کو بھارتی فوج کی یلغار سے بچانے کے لیے درگاہ کے اندر مورچے سنبھال لیے ہیں تو لوگوں نے مجاہدین کے حق میں جلوس نکالے اور ان کی کامیابی کے لیے دعائیہ مجلسیں منعقد کیں۔ درگاہ چرار شریف کے علاوہ پوری بستی کو بھی مجاہدین نے اپنے
کنٹرول میں لے لیا تھا اور بھارتی فوجیوں کی بستی میں گھسنے کی کوشش ناکام بنادی تھی۔ اس صورت حال نے فوج کو مشتعل کردیا۔ اس نے پوری بستی اور درگاہ شریف کو جنگی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے گن پوڈر چھڑک کر آگ لگادی۔ بھارتی فوج کا خیال تھا کہ اس طرح بستی اور درگاہ سمیت تمام محصور مجاہدین بھی زندہ جل جائیں گے اور پورا علاقہ دشمنوں سے پاک ہو جائے گا، لیکن ’’جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘ مجاہدین کی بڑی تعداد آگ کے شعلوں میں سے نکل کر محفوظ مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔ البتہ چرار شریف کا پورا قصبہ اور صوفی بزرگ شیخ نور الدین نورانیؒ کا مقبرہ جل کر خاکستر ہوگیا۔ سید علی گیلانی نے بھارت کی اس دہشت گردی پر شدید احتجاج کرتے ہوئے عالمی اداروں سے اپیل کی کہ وہ کشمیر کے مذہبی و ثقافتی ورثے کو بھارت کی چیرہ دستی سے بچانے کے لیے اپنی ذمے داری پوری کریں۔ انہوں نے پاکستانی حکمرانوں سے بھی کہا کہ کشمیر جل رہا ہے اور وہ پراسرار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، انہیں فوری طور پر یہ معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھانا چاہیے اور او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اس واقعہ کی شدید مذمت کرنی چاہیے۔ اس پس منظر میں 1996ء کے نام نہاد ریاستی انتخابات ہوئے تو سید علی گیلانی کی اپیل پر عوام نے ان کا مثالی بائیکاٹ کیا۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے اپنا امیج بہتر بنانے کے لیے امیر جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر غلام محمد بٹ سے ملاقات کی اور اس بات کا عندیہ دیا کہ حکومت جماعت اسلامی پر سے پابندی ختم کرنا چاہتی ہے۔ امیر جماعت نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اللہ کے دین کا کام کررہے ہیں، پابندی ہو یا نہ ہو اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بہرکیف سات سال بعد جماعت اسلامی پر سے پابندی ہٹالی گئی اور سید علی گیلانی نے جماعت کے شعبہ سیاست کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے فرائض سنبھال لیے۔
(جاری ہے)