مرتے کو مارے شاہ مدار

750

تحریک انصاف کی حکومت جس دن سے اقتدار میں آئی ہے سوائے بیان بازیوں اور کھوکھلے نعروں کے اب تک کچھ نہیں دیا۔ ہر روز ماتم بپا ہے۔ تبدیلی تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کی تبدیلی نے خوب رنگ دکھایا ہے اور اب لوگ تبدیلی کا نام سن کر ہی الامان الحفیظ کا ورد کرنے لگتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے اپنے 1100 دن مکمل کر لیے ہیں ان 1100 دنوں میں ملک میں مہنگائی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے میں آٹے کی قیمت میں کم از کم پانچ فی صد اور گزشتہ ایک سال میں کم از کم بیس فی صد کا اضافہ ہوچکا ہے۔ فلور ملوں کو فراہم کی جانے والی گندم کی قیمت میں بتیس فی صد سے زائد کے اضافے سے ملک میں مہنگائی کی نئی اور خوفناک لہر جنم لے رہی ہے۔ حکومت کے اعلان کے مطابق فلور ملز کو اب چالیس کلو گندم 1475 روپے کے بجائے 1950 روپے میں ملے گی جس سے مارکیٹ میں آٹے کی قیمت کم از کم پینتیس فی صد تک بڑھ جائے گی۔ حکومت کے اس فیصلے سے ذخیرہ اندوزوں کی تو چاندی ہوجائے گی لیکن غریب عوام کا جینا دوبھر ہوجائے گا۔
ملک میں گندم اور چینی کے بحران کی سب سے بڑی ذمے دار بیوروکریسی ہے جس نے بروقت گندم اور چینی درآمد نہ کر کے ملک میں ایک نیا بحران پیداکر دیا ہے۔ جس وقت عالمی منڈی میں گندم 280ڈالر فی ٹن دستیاب تھی اس وقت مختلف حیلے بہانوں سے درآمد کو ٹالا جاتا رہا اور اب گندم کی قیمت 370ڈالر فی ٹن تک ہے تو اسے اب درآمد کیا جا رہا ہے اور یہ گندم کراچی کی بندرگاہ تک پہنچتے پہنچتے 2460 روپے فی من ہوجاتی ہے۔ دوسری جانب حکومت نے پٹرول کی قیمت 5روپے فی لیٹر کا اضافہ کر کے عوام پر پٹرول بم گرا دیا ہے۔ جس سے مہنگائی میں خوفناک اضافہ ہوگا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافہ معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا اور ملک میںمہنگائی کی خوفناک لہر جنم لے گی۔
تحریک انصاف کی حکومت نے مہنگائی کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق چینی اوسطاً 51روپے 52پیسے فی کلومہنگی ہوئی۔ اگست 2018 میں چینی کی اوسط قیمت 55روپے 59پیسے فی کلو تھی۔ ادارہ شماریات کی دستاویزات کے مطابق چینی کی اوسط قیمت اب 107روپے 11پیسے فی کلو ہوچکی ہے، آٹے کا20کلو کا تھیلا اوسطاً 450روپے 87پیسے مہنگا ہوا، اگست 2018 میں 20کلو آٹے کا تھیلا 771 روپے 20پیسے کا تھا، آٹے کا 20کلو کا تھیلا اب 1222 روپے 7پیسے کا ہوچکا ہے، حکومت کے 1100روز میں گھی 192 روپے 47پیسے کلو مہنگا ہوا، گھی فی کلو 150.19 سے بڑھ کر 342.66 روپے ہوچکا ہے۔ اسی طرح ستمبر 2021 کے دوسرے ہفتے کے اختتام پر 33 اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں اوسطاً 9فی صد سے زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جن میں زندہ مرغی کی قیمت میں فی کلو 67روپے کا اضافہ، دال مسورکی قیمت میں فی کلو 32روپے کا اضافہ جبکہ کھانے کے تیل کی قیمت میں 20روپے فی کلو اضافہ سمیت 18اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس وقت ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے، اوپن مارکیٹ میں قیمت فروخت 169.80روپے ہوگئی۔ انٹر بینک اور مقامی اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالرکے مقابلے روپے کی قدر میں گراوٹ کا رجحان برقرار ہے جس کی وجہ سے ڈالر کی قدر ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 170روپے کے انتہائی قریب پہنچ چکی ہے۔ ترسیلات زر کا حجم 10سال کی بلند سطح پر پہنچنے کے باوجود روپیہ مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔
تحریک انصاف نے اپنے تین سالہ دور حکومت میں سابقہ حکمرانوں کی طرح قرضے بھی لیے ہیں اور یہ قرضے اب 39ہزار 900 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ ملک میں پہلے ہی مہنگائی نے تباہی مچائی ہوئی ہے ڈالر کی قیمت بڑھنے سے غریب آدمی تو زندہ درگور ہوجائے گا۔ وزیراعظم اکثر کہا کرتے تھے کہ خود کشی کر لوں گا لیکن آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لوں گا لیکن اب بھاگ بھاگ کر ایک بلین ڈالر کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
ظلم کی انتہا دیکھیے کہ ہمارے حکمراں مہنگائی کیا کم کرتے انہوں نے تو الٹا عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈال کر ان کی جمع پونجی لوٹ لی۔ نیپرا نے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں عوام سے اضافی 193 ارب روپے وصول کر لیے ہیںاس عرصے میں 48ارب 74کروڑ یونٹ بجلی مجوعی طور پر 3روپے 97پیسے فی یونٹ مہنگی فروخت کی گئی۔ نیپرا دستاویزات کے مطابق مئی میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 26پیسے جبکہ جون میں 19پیسے فی یونٹ سستی ہوئی تاہم صارفین کو بمشکل ساڑے 4ارب روپے کا ریلیف ہی مل سکا۔ پتا نہیں وزیراعظم کس دنیا میں رہتے ہیں اور کون انہیں مشورے دے کر پوری دنیا میں ان کا تمسخر اور مذاق اڑواتا ہے۔ کٹے، مرغی، انڈے کے بعد وزراعظم صاحب نے قوم کو ایک اور نادر مشورہ عنایت فرمایا ہے کہ پاکستان کے عوام وہ اپنی آمد ورفت اور پٹرول میں بچت اور سستے سفر کے لیے گھوڑے اور سائیکل کا استعمال کرے اور گھوڑا اور سائیکل خریدی جائے۔ ہمارے حکمراں خدا کا خوف کریں دنیا چاند پر چلی گئی ہے اور نئی نئی کہکشائیں دریافت کی جارہی ہیں اور ہمارے وزیر اعظم آئے روز ایک نیا شوشا چھوڑ کر عوام کو حیران اور پریشان کر دیتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کے اے ٹی ایم اور دیگر مافیائوں کے لیے قومی خزانے سے اربوں روپے کی بڑی بڑی گاڑیاں خریدی گئی ہیں اور وزیر اعظم صاحب قوم کو سفر کے لیے گھوڑے اور سائیکل کا مشورہ دے کر خود خصوصی طیارے میں بیٹھ کر بیرون ملک دورے پر روانہ ہوگئے ہیں۔