کورونا یا لکشمی

302

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے رواں سال کی ابتداء میں ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کے تحت تمام آرٹ کونسلوں کے توسط سے صوبے بھر میں مرحلہ وار پروگرام کے تحت گلوکاری، شاعری، ڈراما سازی، دستکاری وغیرہ کے مقابلے منعقد کرائے تھے جن میں بہاول پور کے دو فنکاروں نے پہلی پوزیشن حاصل کی اور دو فنکاروں نے دوسری پوزیشن حاصل کی وزیر اعلیٰ پنجاب کے ارشاد گرامی کے مطابق اول پوزیشن لینے والے فنکاروں کو دو دو لاکھ روپے انعام کے طور پر دیے جائیں گے۔ مگر اول انعام یافتگان کو ایک لاکھ بیس ہزار روپے دیے گئے بہاول پور کے اول انعام یافتہ فنکار نے کہا کہ آپ نے دو لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا تھا یہ اسی ہزار روپے کس مد میں کاٹ لیے گئے ہیں، مگر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے زیر لب مسکرانے پر ہی اکتفا کیا۔ ویسے بے روزگاری اور مہنگائی کی بے ہنگم رفتار کا جواب تو وزیر اعظم عمران خان کے پاس بھی نہیں ہے، یوں بھی خاموشی سے بہتر کوئی جواب نہیں ہوتا، سیانے سچ ہی کہتے ہیں کہ ایک گناہ کا جواب دیا جائے تو بہت سے گناہ بے نقاب ہو جاتے ہیں، اسی لیے وزیر اعلیٰ پنجاب نے مسکان کا سہارا لیا اور سہارا تو تنکے کا بھی بہت ہوتا ہے، اب یہ ایک الگ بات ہے کہ تنکے کا سہارا بالآخر ڈبو دیتا ہے، حکومت پنجاب کی اس تقریب سے یہ بات بھی علم میں آئی کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کوئی بھی ہو اس کی نظر میں گانے والے، طبلہ بجانے والے اور ڈھول بجانے والے ہی فنکار ہوتے ہیں، شاعر اور ادیب تو صرف شاعر اور ادیب ہی ہوتے ہیں بہاول پور کے نابینا شاعر ظہور آثم کے علم میں یہ بات آئی تو اسے معلوم ہوا کہ شاعری ایک بے کار مشغلہ ہے ایک شوق ہے اور شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، شوق بے مول ہوتا ہے، لیکن یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ حکومت پنجاب ضرورت مند شاعروں اور ادیبوں کی امداد کیوں نہیں کرتی۔
مولانا فضل الرحمن ان دنوں بہت کم بول رہے ہیں، مگر جب بھی بولتے ہیں تو عقل و دانش کے موتی بکھیرتے ہیں، تحریک انصاف کی تین سالہ کارکردگی کو گانے والوں کے پروگرام کا نام دیا ہے، جسے سن کر تحریک انصاف ناانصافی کی مکروہ صورت میں سامنے آئی ہے، بادشاہوں کے دور میں بھی گانے والوں کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی ان کی خدمات کا صلہ بھی دیا جاتا تھا مگر شاعروں کو نظر انداز نہیں کیا جاتا تھا۔ ان کو بھی عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ بلکہ ان کا احترام کچھ زیادہ ہی کیا جاتا تھا۔ اہلیت اور قابلیت کے مطابق ان کو بھی انعام و اکرام سے نوازا جاتا تھا، شاید عمران خان کے مشیروں نے انہیں یہ بات سمجھانے کی کوشش نہیں کی کہ شاعروں اور ادیبوں کی زیر لب مسکراہٹ بادِ صباء جیسی ہوتی ہے مگر جب یہ مسکراہٹ غم اور غصے میں تبدیل ہو جائے تو آندھی بن جاتی ہے۔ اور آندھی ہمیشہ مضبوط اور طاقتور درختوں ہی کو جڑوں سے اکھاڑتی ہے، اور مقتدر قوتیں زمین بوس ہونے والے درختوں کے نیچے دبی سسکتی رہ جاتی ہیں، ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار وزیر اعظم عمران خان کے قدم سے قدم ملائے دودھ ملائی سے لطف اندوز ہورہے ہیں حالانکہ اخلاقی اور قانونی ذمے داری یہ تھی کہ اول پوزیشن کے انعام یافتگان کو اسی ہزار روپے کی کٹوتی کا کوئی معقول اور مناسب جواب دیتے مگر موصوف نے صرف مسکرانے کی زحمت کی حالانکہ ان دنوں گوارا بہت مہنگا ہے اسکول کی تعلیم کے دوران ہم نے کبھی گوارا خریدنے کی زحمت گوارہ نہیں کی اپنے کسی دیہاتی کلاس فیلو سے کہتے یا اس کے ساتھ چلے جاتے اور جتنا چاہتے گوارا لے آتے مگر اب نیازی راج میں کوئی بھی دیہاتی مفت گوارا دینا گوارا نہیں کرتا کہ کوارے کا شمار قیمتی سبزیوں میں ہونے لگا ہے۔ اس کے باوجود وزیر اعظم عمران خان عوام کو طفل تسلیاں دینے سے باز نہیں آتے اپنی ہر تقریب میں کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا ہے۔ اب ہمیں کسی بیساکھی کی ضروت نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھٹو مرحوم کی طرح عوام کو سیاسی معاملات میں گفتگو کرنے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کا جو سلیقہ عطا کیا ہے عوام اب بھی اس سے استفادہ کررہے ہیں۔ گزشتہ دنوں مہنگائی اور بے روزگاری کے موضوع پر چائے کے ایک ڈھابے پر گفتگو ہو رہی تھی، سبھی لوگ عمران خان کے طرز حکمرانی پر طنز کے تیر برسا رہے تھے ان کا خیال تھا کہ فوج حکومت کے پیج پر کھڑی ہے اس لیے عمران خان خان اعظم بنے ہوئے ہیں۔ ورنہ عوام کبھی کی سڑکوں پر آکر خان صاحب کو بھی سڑکوں پر لے آتے یہ تبصرہ سن ایک جہاندیدہ بزرگ نے کہا کہ ہر معاملے میں فوج کو ہدف بنانا حب الوطنی کے جذبے کی توہین ہے۔ فوج حکومت کی نہیں ملک کی ہوتی ہے اور ملک عوام کے دم سے چلتے ہیں۔ ایک دل جلے جوان نے جواب دیا کہ فوج عوام کی ہے، ملک کی ہے تو حکومت کے مفادات کا تحفظ کیوں کررہی ہے، فوج کو حکومت کے نہیں عوام کے پیج پر ہونا چاہیے، یہی اس کی ذمے داری ہے اور یہی اس کا فرض ہے۔ فوج حکومت کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑی ہے اور کندھے عوام کے زخمی ہو رہے ہیں، اب عوام ہی کو سڑکوں پر آنا پڑے گا۔ مذکورہ بزرگ نے کہا اگر تم دوتین دن کام پر نہ جائو تو تمہارا خاندان کیا محسوس کرے گا نوجوان نے کہا کہ اگر میں ایک دن بھی کام پر نہ جائوں تو میرے بچے بھوک سے بلبلاتے رہیں گے اور میری بیوی اپنی قسمت کا ماتم کرے گی، اب تو بچوں کو تعلیم دلانا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ کورونا وائرس تعلیمی بیوریوں کے لیے لکشی بن گیا ہے، ہاتھ پائوں ہلائے بغیر ہی کمائی کا ذریعہ بنا ہوا ہے مگر حکمران طبقہ یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کرتا کہ اسکول بند ہوں تو فیس کیوں لی جاتی ہے، شاید حکومت کے علم میں یہ بات بھی نہیں ہوگی کہ اسکول بند ہوں تو اساتذہ کو تنخواہ بھی نہیں دی جاتی مگر بچوں سے فیس بڑی باقاعدگی سے لی جاتی ہے، یہ ہے وزیر اعظم عمران خان کی عوامی ہمدردی اور خیر خواہی۔