پسِ دیوار

435

یہ بڑی نیک شگون اور خوش آئند بات ہے کہ وکلا اور وکلا تنظیموں کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ انصاف کی فراہمی میں پیشی در پیشی کے اذیت ناک عمل سے زیادہ تکلیف دہ بات عدالتوں میں چھٹی در چھٹی کا عمل ہے اگر عدالتی چھٹیاں کم کر دی جائیں اور پیشی در پیشی کھیل کو کسی قاعدے اور ضابطے کے تابع کر دیا جائے تو انصاف کی جلد فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے، یہ خبر ایک ایسی غزل کی طرح ہے جو سماعت نوازی کا فریضہ بڑی اسلوبی سے ادا کرتی ہے، اور سامع واہ وا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے مگر جب وہی غزل پر سکون ماحول میں بیٹھ کر پڑھتا ہے تو اپنی پسند پر ندامت محسوس کرتا ہے، اپنی واہ واہ پر آہ آہ کر کے تلافی کرنا چاہتا ہے مگر کمان سے نکلا ہوا تیر اور زبان سے نکلا ہوا جملہ واپس نہیں آتا، ہمیں خدشہ ہے کہ وکلا اور وکلا تنظیموں کے خیالات سن کر جو وقتی خوشی ہوئی ہے وہ کسی اور کی خوشنودی بیگم نہ نکلیں کیونکہ پیشی درپیشی کا کھیل وکلا کا شغل ہے اور شغل شوق کی طرح بے مول ہوتا ہے، جو چیز مول کے بغیر ملے اسے کون چھوڑ سکتا ہے۔ خیر چھوڑیے اس معاملے کو بات کرتے ہیں عدالتی تعطیلات کی ہم بارہا انہیں کالموں میں گزارش کر چکے ہیں کہ جس طرح آرمی رینجر اور پولیس کے محکموں میں سالانہ چھٹیاں دی جاتی ہیں اسی اصول پر عمل کر کے زیر سماعت مقدمات کو بھی جاری رکھا جاسکتا ہے اور عدالتوں پر مقدمات کے انبار کو کم کیا جاسکتا ہے جب مقدمات کی سماعت کو یقینی بنایا جائے تو فیصلے میں تاخیر ممکن ہی نہیں وطن عزیز کا نظام عدل دنیا کا واحد نظام عدل ہے جس کے ذریعے کسی بھی باعزت شخص کو رسوا کیا جاسکتا ہے، کسی بھی شخص کی نیک نامی کو داغدار کیا جاسکتا ہے، اس حقیقت سے انکار کی گنجائش ہی نہیں کہ جعل سازی پر مبنی مقدمات تیزاب گردی سے زیادہ خطر ناک ہوتے ہیں عدلیہ کا چہرہ بدنما اور بے کشش ہو جاتا ہے، تیزاب کا داغ وقت کے ساتھ مٹ جاتا ہے مگر عدالت کے چہرے پر لگا داغ وقت کے ساتھ ساتھ گہرا ہو جاتا ہے، حیرت کی بات ہے کہ وطن عزیز کی عدلیہ کے کرتا دھرتا لوگوں کو سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی۔
ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اس حقیقت کا بہت پہلے ادراک کر لیا گیا تھا کہ جعلی مقدمات کسی بھی شہری کو رسوا اور بے عزت کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں، سو وہاں پر کسی دائر مقدمہ کا فیصلہ سنانے سے قبل یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ مقدمہ قابل سماعت بھی ہے یا مدعا علیہ کو رسوا کرنے اور اس کی نیک نامی کو داغدار کرنے کی سازش ہے۔ اس ضمن میں ہم نے کئی جج صاحبان سے گفتگو کی ہے مگر اس معاملے میں انہوں نے اپنی جن مجبوریوں کا اظہار کیا وہ نظام عدل کے لیے بے توقیری کے سوا کچھ نہیں جج صاحبان کا کہنا ہے کہ سائلین کی فائل اور ان کی گفتگو سن کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹ بول رہاہے مگر ہم جعل سازی کی بنیاد پر کسی مقدمہ کو خارج نہیں کر سکتے کیونکہ انصاف کی فراہمی ایسا عمل ہے جو پراپر چینل کے ذریعے ہی انجام تک پہنچایا جاسکتا ہے، اگر جج صاحبان جعل سازی کی بنیاد پر مقدمات خارج کرنے لگیں تو وکلا عدالتوں میں پیش ہونے سے انکار کر دیں گے، اور وکلا تنظیمیں جج اور جسٹس صاحبان کے تبادلے کا مطالبہ کریں گے اور یہ مطالبہ ایک ایسا عمل ہے جس پر اعلیٰ عدلیہ اور عدالت عظمیٰ کو سرنگوں ہونا ہی پڑتا ہے۔ یوں ایمان دار ججوں کا بستر سر سے نہیں اترتا اہلیہ کی طعنہ زنی اور بچوں کی تعلیم میں ناقابل برداشت رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑے گا اس لیے جعلی مقدمات کی سماعت مجبوری بن جاتی ہے۔ ان حالات میں وکلا اور وکلا تنظیموں کا بیان قوم اور عدلیہ کو بے وقوف بنانے کی سعی نامشکور ہے۔
ہماری یہ توقع بے جا نہیں ہوگی کہ وکلا اورر وکلا تنظیمیں عدالتی چھٹیوں اور پیشی در پیشی کے عمل کے ساتھ یہ کوشش بھی کریں گے کہ مقدمات کا فیصلہ سنانے کے لیے وقت کا تعین کیا جائے، ملائشیا میں دیوانی مقدمات کا فیصلہ چھ ماہ میں اور فوجداری مقدمات کا فیصلہ ایک سال میں کیا جاتا ہے۔ اگر کسی مقدمہ کا فیصلہ مقررہ مدت میں نہیں سنایا جاتا تو متعلقہ جج سے اس کی وجہ دریافت کی جاتی ہے اور فیصلہ سنانے میں جو رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں انہیں باہمی مشاورت سے دور کیا جاتا ہے۔ یہ ایک یقینی بات ہے کہ جب تک نظام عدل انصاف کی فراہمی کو لیفٹ اوور کے ہتھوڑے اور وکلا کے تاخیری حربوں کے سامنے سرنگوں رہے گا۔ عدالتی نظام میں خدا کی نیابت پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکتا۔ انصاف کی فراہمی ممکن ہی نہیں اور جس ملک میں انصاف نا پید ہو جائے وہاں شیطان کے جانشین خودرو بوٹیوں کی طرح پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ بد امنی اور افراتفری ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرتی رہتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نظام عدل کی خرابیوں کو انصاف کی عدم فراہمی کا ذمہ دار ٹھیرایا جائے اس لیے جج اور جسٹس صاحبان کا تقرر ان کے سماجی کردار کے پیش نظر کیا جائے جس ملک میں وکلا کی ہڑتالوں پر کوئی پابندی نہ ہو جج اور عدالتوں کی چھٹیاں کورونا زدہ اسکول کی چھٹیوں سے بھی زیادہ ہوں وہاں انصاف کا حصول نہ ممکن ہے۔
میرے احباب کہتے ہیں یہی اک عیب ہے مجھ میں
سرِدیوار لکھتا ہوں، پسِ دیوار کے قصے