داعش پر قابو پالیں گے،دنیا نے تسلیم نہ کیا تو نتائج خطرناک ہوں گے،طالبان

500

کابل/دوحا/واشنگٹن (آن لائن/صباح نیوز) افغانستان کے نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ اگر امارت اسلامی افغانستان کو تسلیم نہ کیا گیا تو نقصان ہمیں بھی ہوگا اور دنیا کو بھی ہو گا۔ ایک نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے افغانستان کے نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ دنیا امارت اسلامی افغانستان کو تسلیم کرے یہ افغانوں کا حق ہے۔ انہوں نے کہا دنیا نے ہم کو اب بھی تسلیم نہ کیا تو اس کا نتیجہ خطرناک اور اچھا نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی امارت کو تسلیم نہ کیا گیا تو اس کا نقصان افغانستان کو بھی ہوگا اور دنیا کو بھی ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کی افغان سرزمین سے دہشت گردی کے متعلق تشویش بیجا ہے، افغانستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، افغانستان کی سرزمین پر ہمارا کنٹرول ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوطی آرہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ القاعدہ سمیت دیگر دہشت گرد گروپس افغانستان میں نہیں ہیں، ناہموار پہاڑی علاقوں میں اگر کوئی ہے تو ان کو روکیں گے۔انہوں نے کہا کہ کوئی غیرملکی دہشت گرد افغانستان میں موجود نہیں ہے، ایسی اطلاعات غلط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا راستہ کھلا ہوتا تو 20 سال جنگ نہ ہوتی، ہماری اپنی وزارت خزانہ ہے اس کو منظم کرنے کی ضرورت ہے، قطر، اردن، پاکستان اور یو اے ای سمیت دیگر ممالک کی حکومتوں نے ہماری مدد کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری قوم ابھی جنگ سے نکلی ہے اس کو مدد کی ضرورت ہے، ہمارے لیے امداد کا جو اعلان ہوا وہ ہمیں دی جائے، ہماری مدد کی جائے یہ دنیا کے لیے بھی اچھا ہوگا اور ہمارے لیے بھی بہتر ہو گا، امید ہے دنیا بھی ہمارے ساتھ تعاون کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ائرپورٹ، تعلیم اور صحت سمیت دیگر شعبوں میں خواتین کام کرنے آ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ جو یونیورسٹیز بند ہیں وہ بھی جلد کھل جائیں گی۔طالبان کے درمیان اختلافات کے حوالے سے بات؎ کرتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان میں کوئی اختلافات نہیں، ملابردار کی وڈیو جاری ہو چکی ہے۔دوسری جانب قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ امریکا سے جنگ کا باب ختم ہوگیا اب نئے تعلقات کی شروعات چاہتے ہیں۔ وائس آف امریکا سے انٹرویو میں ترجمان طالبان نے کہا کہ جب امریکا سے افغانستان میں جنگ تھی تب وہ ہمارا دشمن تھا تاہم اب جنگ کا چیپٹر ہی ختم ہوگیا اور امریکا کو بھی سمجھ آگیا کہ مسئلے کا حل مذاکرات میں ہے۔امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات کی شروعات چاہتے ہیں تاہم یہ امریکا پر منحصر ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کام کرکے افغانستان میں غربت کے خاتمے، تعلیم کے شعبے، اور افغانستان کے بنیادی ڈھانچے کو کھڑا کرنے میں مدد کرتا ہے یا نہیں۔انہوںنے کہا کہ داعش کو کنڑ اور ننگرہار میں شکست دی تھی اور اب بھی داعش پر قابو پانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ترجمان طالبان سہیل شاہین نے عبوری حکومت میں افغانستان کی تمام اقوام اور طبقات کی نمائندگی نہ ہونے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت تمام نسلی گروپس کی حمایت سے بنائی گئی ہے جب کہ فوری الیکشن کا امکان کو بھی رد کرتے ہوئے کہا کہ ابھی آئینی مسودے پر کام جاری ہے۔خواتین کی تعلیم اور ملازمتوں سے متعلق سوال کے جواب میں ترجمان طالبان کا کہنا تھا کہ شریعت کے تحت خواتین کو تمام حقوق دیں گے لیکن اعلی حکومتی عہدوں پر خواتین کی تعیناتی پرعلمائے دین سے مشوروں کے بعد ہی غور کیا جاسکتا ہے۔یہ خصوصی انٹرویو وائس آف امریکا کی ویب سائٹ پر شائع ہوا تھا۔امریکی اخبارکی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ قومی مزاحمتی محاذ افغانستان کے سربراہ احمد مسعود نے امریکی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک امریکی لابنگ فرم ’رابرٹ اسٹرائیک‘ کو ہائرکیا، یہ لابنگ فرم کام مفت میں کرتی ہے۔احمد مسعود کے قریبی ذرائع نے امریکی اخبار کو بتایا کہ ان کا بنیادی ہدف طالبان کو امریکا کی جانب سے تسلیم کیے جانے سے روکنا تھا۔رپورٹ کے مطابق لابیز کی ایک بڑی تعداد نے اخبار کو بتایا ہے کہ طالبان بھی امریکی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایسا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن پابندیوں کی وجہ سے یہ واضح نہیں کہ طالبان کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں۔