کھیلوں کی دنیا اور پاکستان

558

جدید دور میںکھیلوں کی تمام تر پیشہ ورانہ ترقی کے باوجود انہیں آج بھی کسی بھی قوم کی اجتماعی صحت مندی کا اولین پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس قوم کے کھیلوں کے میدان آباد ہوں وہاں غربت وافلاس اور بیماریاں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ کھیل کود اور انسانی معاشرے کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے گو یہ حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرت میں ترقی کی شرح سے کھیل کود کے طور طریقوں میں بھی تبدیلی آتی رہی ہے لیکن بہر حال کھیل کود کو آج بھی کسی بھی صحت مند معاشرے کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ برصغیر پاک وہند چونکہ ایک درخشاں تاریخ کا مرکز رہا ہے اور یہاں بعض مقامی کھیلوں کے علاوہ تقریباً ہر کھیل کھیلا جاتا رہا ہے اس لیے تقسیم برصغیر کے وقت متحدہ ہندوستان کا سب کچھ دو آزاد اور خود مختار ممالک میں بٹنے کے بعد کھیل کود کے میدان اور مختلف کھیلوں کی مشترکہ ٹیمیں بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھیں جن کی نمایاں مثال متحدہ ہندوستان کی کرکٹ اور ہاکی ٹیموں کا بھارت اور پاکستان کی دو الگ الگ ٹیموں میں بٹ جانا تھا۔ واضح رہے کہ پاکستان نے آزادی کے بعد پہلی بار 1948 میں لندن میں منعقدہ اولمپکس مقابلوں میں حصہ لیا تھا جن میں پاکستان کوئی بھی تمغہ حاصل نہیں کرسکا تھا۔ اس کے بعد اگلی بار ہیلسنکی اولمپکس میں بھی یہی حال رہا، البتہ 1956 میں میلبورن آسٹریلیا میں پاکستان کو ہاکی کے فائنل میں بھارت کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا البتہ ان گیمز میں پاکستان کو کم از کم چاندی کا تمغہ ضرور مل گیا تھا جو پاکستان کا اولمپکس میں پہلا تمغہ تھا۔ اگلی بار 1960 کے روم اولمپکس میں پاکستان نے اپنے روایتی حریف بھارت کو ہاکی کے فائنل میں ہرا کر نہ صرف پچھلی شکست کا بدلہ چکا دیا تھا بلکہ پہلی بار سونے کا تمغہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگیا تھا۔ پاکستان کو کھیلوں کی دنیا میں ماضی میں زیادہ تر شہرت ہاکی، اسکواش، کرکٹ، اسنوکر اور کسی حدتک باکسنگ، ریسلنگ اور کشتی رانی میں ملتی رہی ہے لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پچھلے تین عشروں کے دوران زندگی کے بعض دیگر شعبوں کی طرح ہم عالمی سطح پر کھیلوں میں بھی اپنی ساکھ کھوتے رہے ہیں جس کا ثبوت گزشتہ 29سال کے دوران پاکستان کا کسی بھی کھیل میں عالمی سطح پر کوئی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھانا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے عالمی سطح پر آخری مرتبہ بارسلونا اولمپکس 1992 میں ہاکی میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔
موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد یہ امید پیدا ہوچلی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان چونکہ ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ کھلاڑی ہونے کے ناتے کھیلوں کی اہمیت اور اس شعبے میں درپیش مسائل سے براہ راست واقف ہیں اس لیے وہ اور نہیں تو کم از کم کھیلوں کے میدان میں پاکستان کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے لیکن حال ہی میں جاپان میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں پاکستان کی ناقص کارکردگی اور ان اولمپکس میں سات افراد پر مشتمل پاکستانی دستے کے خالی ہاتھ وطن لوٹنے سے نہ صرف یہ امیدیں دم توڑ گئی ہیں بلکہ ان مایوس کن نتائج سے پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا وہ سب سے بڑا ملک بھی بن گیا ہے جس نے اولمپکس میں کوئی بھی تمغہ نہیں جیتا۔
اگر کھیلوں میں پاکستان کی 74سالہ کارکردگی کو دیکھا جائے تو شروع سے اب تک پاکستان کے 217 کھلاڑیوں نے 17 اولمپکس مقابلوں میں حصہ لیا ہے اور اس دوران کل ملا کر صرف دس تمغے جیتے، جن میں تین سونے، تین چاندی اور چار کانسی کے تمغے شامل ہیں جن میں آٹھ تمغے ہاکی کے مرہون منت ہیں لیکن بدقسمتی سے پچھلے کچھ عرصے سے ہمارے ہاں دیگر کھیلوں کے ساتھ ساتھ ہاکی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے اس کی وجہ سے پاکستان ہاکی ٹیم نہ تو گزشتہ اولمپکس اور نہ ہی حالیہ اولمپکس میں کوالیفائی تک کر سکی ہے جو یقینا پوری قوم کے لیے لمحہ فکر ہے۔
یہاں اس امر کی نشاندہی بھی اہمیت کی حامل ہے کہ ٹوکیو اولمپکس میں 93ممالک ایسے تھے جو کوئی نہ کوئی تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جن میں پاکستان شامل نہیں ہے۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ اس فہرست میں یوگنڈا اور ایتھوپیا جیسے غربت وافلا س کے شکار ممالک بھی چار چار میڈل حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں حتیٰ کہ شام جیسا طویل خانہ جنگی اور تباہی وبربادی سے دوچار ملک بھی ان اولمپکس میں تانبے کا میڈل جیت سکا ہے۔ دنیا کھیلوں کو کتنی اہمیت دیتی ہے اور کھیلوں کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک دنیا کے سامنے اپنا سافٹ امیج پیش کرنے کے لیے کھیلوں پر کتنے بھاری بھر کم اخراجات کرتے ہیں ان کا اندازہ ٹوکیو اولمپکس پر جاپان کے ہونے والے 15.4 ارب ڈالرکے کثیر اخراجات سے لگایا جاسکتا ہے۔ دراصل کھیل کے میدان کی کارکردگی چاہے وہ کمال ہو یا زوال کسی بھی ملک کی مجموعی قومی کارکردگی کا عکس ہوتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لیجیے کہ ٹوکیو اولمپکس میں امریکا 113 تمغوں کے ساتھ سرفہرست رہا ہے اور چین 88 تمغوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر آیا ہے جب کہ ہم اس صف میں سب سے آخر میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
کھیلوں کی دنیا سے ہماری پسپائی اور یہ شعبہ نظر انداز ہونے کی ہمارے ہاں ویسے تو کئی وجوہات ہوں گی لیکن ان میں سب سے بڑی اور واضح وجہ اوپر سے نیچے تک میرٹ کا فقدان ہے۔ لہٰذا جب میرٹ پامال ہوتا ہے تو پھر میڈل جیتنے کی امید باندھنا اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف یا پھر بے وقوفی کی علامت ہے۔ اندازہ لگائیے کہ 2004 میں جب پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے موجودہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عارف حسن نے عہدہ سنبھالا تو وطن عزیز میں میر ظفر اللہ خان جمالی مرحوم کی حکومت تھی ان کے بعد گزشتہ 17سال میں ملک کے 11 وزیر اعظم آ کر چلے گئے لیکن اولمپکس ایسوسی ایشن کے سربراہ کو اب بھی ملک و قوم کی خدمت کا بھاری پتھر اٹھانا پڑ رہا ہے حالانکہ حالیہ بدترین نتائج کے بعد ان کا موجودہ عہدے پر برقرار رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔