پاکستان کرکٹ ٹیم کا مسئلہ مڈل آرڈرمیں ہے

174

چار میچوں پر مشتمل یہ متوقع دلچسپ سیریز بارش کی نذر ہوگئی، چار میں سے صرف ایک میچ ہوسکا جو پاکستان نے 7 رنز سے جیت لیا تین میچ بارش کی نذر ہوگئے۔
ویسٹ انڈیز نے ٹاس جیت کر پاکستان کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی۔ پاکستان ٹیم اب بھی تجربات کررہی ہے، ٹیم میں حیرت انگیز بات یہ اوپننگ جوری بابر اعظم اور محمد رضوان کی جو اس وقت دنیا کی ٹی ٹوئنٹی میں بہترین اور کامیاب جوڑی سمجھی جاتی ہے اس پر بھی تجربات ہورہے ہیں اور رضوان کے ساتھ شرجیل خان کو اوپن کرایا گیا۔ ایک مستند جوڑی پر تجربات کرنا حیران کن بات ہے ، ورلڈ کپ قریب ہے جبکہ مسئلہ مڈل آرڈر میں ہے جو اب تک Settle نہیں ہوا۔
آصف علی، افتخار احمد، حیدر علی، اعظم خان، محمد حفیظ، صہیب مقصود، شعیب ملک، فخر زمان سے مڈل آرڈر لیاگیا مگر صرف محمد حفیظ کی پوزیشن ہی ٹیم کے مڈل آرڈر میں مستحکم نظر آتی ہے۔ ٹیم کی بہت زیادہ تجربات ابھی تک مڈل آرڈر مستحکم ہی ہوسکا۔ ورلڈ کپ میں ہمیشہ تجربہ کی بہت اہمیت ہوتی ہے کہ تجربہ کار کھلاڑی پریشر لینا جانتے ہیں اور پریشر میں پرفارم بھی کرتے ہیں۔
ہمارے پاس تو اب تک کسی کو نہیں پتہ کون کھیلے گا ٹیم میں اور کون ڈراپ ہوگا۔ صرف 4 سے 5 لڑکے ریگولر کھیلتے ہیں۔ بابر اعظم، محمد رضوان، شاداب خان، شاہین آفریدی اور حسن علی۔
آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم کی 144 سال کی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ہمیشہ سے یہ ٹیم دنیائے کرکٹ پر راج کرتی رہی دوسری ٹیموں کو عروج و زوال آیا ہے، مگر آسٹریلیا ٹیم کو زوال بہت کم آیا اس کی دو بنیادی وجوہات سمجھ آتی ہیں ایک تو ان کا کرکٹ کا ڈومیسٹک اسٹرکچر جو بہت مضبوط ہے دوسرا جب ان کی ٹیم چاہے ٹیسٹ کرکٹ کھیلے چاہے ون ڈے یا ٹی ٹوئنٹی ان کے ہر پلیئر کو اپنی ذمہ داری معلوم ہوتی ہے اور اپنا بیٹنگ نمبر وہ بہت زیادہ تبدیلیاں یا تجربات نہیں کرتے ٹیم میں اس کے برعکس ہمارے کسی پلیئر کو نہیں پتہ ہوتا کہ اس کا بیٹنگ آرڈر کیا ہے، آیا وہ ٹیم میں کھیلے گا بھی یا نہیں۔ صہیب مقصود کی بیٹنگ صلاحیت کے بارے میں کرکٹ کے کسی پنڈت کو انکار نہیں ان کے پاس کرکٹ بک کے ہر شاٹ ہیں جس کو وہ بخوبی کھیلتے بھی ہیں۔ اس کے باوجود نہ صرف ان کی ٹیم میں جگہ مستحکم ہے نہ ان کا بیٹنگ آرڈر۔
محمد رضوان ٹی ٹوئنٹی میں اوپننگ کی حیثیت سے خود کو بہت زیادہ مستحکم کرچکے اور جب مڈل آرڈر بیٹنگ اب تک غیر متوازن ہے تو پی سی بی اور ٹیم انتظامیہ کے لیے ۔ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان آرہی ہے جو ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گی۔ بہتر یہی ہے کہ رضوان کو وکٹ کیپنگ کے اضافی بوجھ سے نجات دلائیں اور سرفراز احمد کو بطور وکٹ کیپر کھلایا جائے، ان کی موجودگی سے مڈل آرڈر مضبوط بھی ہوجائے گا اور ورلڈ کپ میں پاکستان کو ایک تجربہ کار پلیئر کی خدمات بھی حاصل ہوجائے گی۔ ورلڈ کپ سے قبل نیوزی لینڈ کے خلاف ہونے والی سیریز آخری ہے اس کے بعد پاکستان کو ورلڈ کپ کھیلنا ہے۔ پاکستان ٹیم کے لیے اب بہتر یہی ہے کہ نیوزی لینڈ کے خلاف وہی پلینگ الیون کھلائیں جس کو ورلڈ کپ میں کھلانا ہے، ا سطرح ٹیم کا کمبی نیشن بھی بنا رہے گا۔ بابر اعظم، محمد رضوان، صہیب مقصود، محمد حفیظ، شعیب ملک، سرفراز احمد، عماد وسیم/ محمد نوا، شاداب/ عثمان قادر، حسن علی، محمد وسیم جونیئر اور شاہین شاہ آفریدی۔ بیک اپ میں خوشدل شاہ، حیدر علی، اعظم خان موجود ہیں، عامر یامین بھی ایک اچھے آل رائونڈر کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔
ٹیم میں پسند اورناپسند کا سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟
ویسٹ انڈیز نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد پہلا ٹیسٹ پاکستان کے خلاف ایک وکٹ سے جیت لی۔
آخری سیشن میں تین کیچ ڈراپ کرنا پاکستان کی شکست کی بنیادی وجہ بنی۔ ویسٹ انڈیز اب ٹیسٹ کرکٹ میں ایک کمزور ٹیم مانی جاتی ہے، جو ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ایک کمزور ٹیم کے خلاف پاکستان کی یہ کارکردگی پاکستان کرکٹ بورڈ، سلیکٹرز کوچ مصباح الحق، وقار یونس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، رہی سہی کسر بابر اعظم کا میچ سے قبل یہ بیان کہ ’’میں اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کروں گا‘‘ ان کے اس ذہن کی عکاسی کرتا ہے کہ ان کو صرف اپنی پرفارمنس سے غرض ہے ٹیم کی کارکردگی سے نہیں۔ جب کپتان کی یہ سوچ ہو تو نتیجہ یہی نکلنا تھا جو پاکستان کی شکست کی صورت میں نکلا۔ اوپننگ میں عمران بٹ کی کمی کوئی خاص کارکردگی اب تک سامنے نہیں آئی مگر ان کو مستقل کھلایا جارہا ہے جب ٹی ٹوئنٹی میں محمد رضوان بطور اوپنر اپنی بہترین بلے بازی سے دنیا میں اپنا نام بناچکے تو کیوں نہ ٹیم انتظامیہ ان سے ٹیسٹ کرکٹ میں اوپننگ کیوں نہیں کراتے۔ جبکہ ٹیسٹ کرکٹ میں مڈل آرڈر پر رضوان کی کارکردگی کوئی خاص نہیں۔ اب بھی وقت ہے ٹیم انتظامیہ کو چاہے کہ رضوان کو وکٹ کیپنگ کے بوجھ سے آزاد کریں اور ان کو تینوں فارمیٹ میں بطور اوپننگ بیٹسمین کھلائے۔ وکٹ کیپنگ کی ذمہ داری سرفراز احمد کو دی جائے جس سے ٹیم کا مڈل آرڈر بھی مستحکم ہوجائے گا اور ٹیم میں ایک تجربہ کار پلیئر کا اضافہ ہوجائے گا۔
اظہر علی بھی عرصہ سے آئوٹ آف فارم ہیں، ان کی بیٹنگ میں اب وہ بات نہیں نظر آتی جو ماضی میں ان کا خلاصہ تھی۔ اسد شفیق جو مسلسل 74 ٹیسٹ کھیل کر پاکستان کی تاریخ رقم کرچکے صرف 3 سے 4 میچوں میں ان کی کارکردگی کی وجہ سے ان کو ٹیم سے باہر کردیا گیا اور ان کو واپس لانے کی بات کبھی نہیں ہوئی شاید وہ مصباح الحق کی Good books میں نہیں ہیں۔ آخر کب تک پاکستان ٹیم میں پسند اور ناپسند کا سلسلہ چلتا رہے گا اور ٹیم کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہیں گے۔ ماضی میں بھی کوئی پلیئر اس پسند ناپسند کی بھینٹ چڑھ چکے۔