فاروق اعظمؓ کی خدمات

592

امیر المومنین خلیفۃ المسلمین شہیدِ محراب ومنبر سیدنا عمر بن خطاب اُمت کے بڑے فقیہ، مجتہد اور عالم تھے، رسول اللہؐ نے بارہا آپ کے علم وفضل کی شہادت دی، احادیث مبارکہ میں ہے: ’’نبی کریمؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حق بات کو سیدنا عمر کی زبان اور دل میں رکھ دیا ہے، (مسند احمد)‘‘، ’’رسول اللہؐ نے فرمایا: میں ایک مرتبہ سو رہا تھا کہ میرے سامنے دودھ کا پیالہ لایا گیا، میں نے اسے پی لیا یہاں تک کہ سیرابی میرے ناخنوں سے ظاہر ہونے لگی، پھر میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمر بن خطاب کو دے دیا، صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ! اس کی تعبیر کیا ہے، آپؐ نے فرمایا: اس کی تعبیر علم ہے، (بخاری)‘‘، ’’نبی کریمؐ نے فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے، (ترمذی)‘‘۔ سیدنا عمر کو متعدّد اُمور میں اوَّلیت (پہل) کا شرف حاصل ہے:
(۱) عَلانیہ ہجرت فرمائی، (۲) امیر المومنین کے لقب سے مشہور ہوئے، (۳) ہجری تاریخ کا آغاز کیا، (۴)نمازِ تراویح باجماعت رائج کی، (۵) قرآنِ مجید کو جمع کرنے کا مشورہ دیا، (۶) بوڑھے اور نادار ذمیوں سے جزیہ (ٹیکس) ساقط کیا، (۷) ہر شخص کے لیے اسلامی فوج میں بھرتی کو لازمی قرار دیا، (۸) راتوں کو لوگوں کے احوال معلوم کرنے کے لیے گشت کا سلسلہ شروع کیا، (۹) مجاہدین کے ناموں اور وظائف کے لیے رجسٹر مرتّب کیا، (۱۰) راستوں میں مسافر خانے اور شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے، (۱۱) جیل خانہ، پولیس کا محکمہ اور فوجی چھاؤنیاں قائم کیں، (۱۲) نئے شہر بسائے تاکہ بڑے شہروں کی طرف آبادی کا بہائو کم ہو، (۱۳) مردم شماری کی تاکہ آبادی کے تناسب سے منصوبہ بندی کی جاسکے اور وسائل کی تقسیم ہو۔
آپ اپنے مقرر کردہ عُمّال کو تھوڑے عرصے بعد تنبیہ ونصیحت فرمایا کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! میں نے اپنے عُمّال کو تم پر اس لیے مقرر نہیں کیا کہ وہ تم پر ظلم کریں، تمہارے مال چھین لیں۔ میں نے اُنہیں اس غرض سے تم پر مقرر کیا ہے کہ وہ تمہیں تمہارے دین کی تعلیم دیں اور تمہیں نبی کریمؐ کی سنتیں سکھائیں۔ لہٰذا جس شخص کے ساتھ اس کے برعکس سلوک کیا جائے تو وہ فوراً مجھے اطلاع دے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں عمر کی جان ہے! میں ضرور انصاف کروں گا اور ظالموں سے قصاص لوںگا۔ یہ سن کر سیدنا عمرو بن عاص نے عرض کی: امیر المومنین آپ اپنی اس بات پر غور فرمائیں، جسے آپ عامل بنائیں گے وہ مسلمانوں میں سے ہی ہوگا، اگر اس نے رعایا میں سے کسی کی تادیب کی تو کیا آپ اس سے قصاص لیں گے، فرمایا: ہاں! قسم بخدا میں اس سے ضرور قصاص لوں گا، آگاہ ہوجاؤ! کسی مسلمان کو نہ مارنا، کسی مسلمان کی تذلیل نہ کرنا، اُنہیں فتنے میں مبتلا نہ کرنا، اُنہیں سرحدوں پر جمع کرکے نہ رکھنا کہ تم اُنہیں اُن کے بیوی بچوں کے پاس واپس لوٹنے سے روکو، اُنہیں اُن کے حقوق پیہم ادا کرتے رہنا، (مسند احمد)‘‘۔
آپ اپنے عُمّال کی کڑی نگرانی فرماتے اور ان کا احتساب کرتے رہتے تھے۔ جب کسی شخص کو عامل مقررکرتے تو اس سے چار باتوں پر حلف لیتے تھے: (۱)گھوڑے پر سوار نہ ہونا، (۲) لباسِ فاخرہ نہ پہننا، (۳) عمدہ اور اعلیٰ کھانے نہ کھانا، (۴) اپنے دروازوں کو بند نہ رکھنا اور دربان مقرر نہ کرنا کہ لوگ اپنی حاجتوں کے لیے نہ آسکیں۔ ایک دفعہ سیدنا عمر بازار میں جارہے تھے، ایک طرف سے آواز آئی: عمر! کیا عُمّال کے لیے کچھ اصول وضوابط مقرر کرکے تم اپنے آپ کو عذابِ الٰہی سے بچا سکتے ہو، تمہیں خبر ہے کہ مصر کا عامل عیاض بن غنم باریک کپڑے پہنتا ہے، اس کے دروازے پر دربان مقرر ہے، سیدنا عمر نے محمد بن مسلمہ کو بلایا اور کہا: عیاض کو جہاں پائو، ساتھ لے آؤ۔ محمد بن مسلمہ نے وہاں پہنچ کر دیکھا تو واقعی دروازے پر دربان تھا اور عیاض باریک کپڑے کی قمیص پہنے بیٹھے تھے، اسی حالت میں انہیں ساتھ لیکر مدینہ طیبہ آئے، سیدنا عمر نے وہ قمیص اُتروا کر اون کی قمیص پہنائی اور بکریوں کا ایک ریوڑمنگوا کر حکم دیا: ’’انہیں لے جاکر جنگل میں چراؤ‘‘، عیاض کو انکار کی مجال نہ تھی، لیکن بار بار یہ کہتے: اس سے مرجانا ہی بہتر ہے، سیدنا عمر نے فرمایا: تجھے اس سے عار کیوں ہے، تیرے باپ کا نام غنم اِسی وجہ سے پڑا تھا کہ وہ بکریاں چراتا تھا، (ازالۃ الخفاء)‘‘۔
سیدنا عمر نے سیدنا ابوعبیدہ کو لکھا: اپنے اوپر پانچ باتوں کو لازم کرلو، تمہارا دین سلامت رہے گا: جب تمہارے سامنے مقدمے کے فریقین حاضر ہوں تو معتبر لوگوں کی گواہیوں اور پختہ قسموں پر خاص توجہ دو، کمزوروں کو اپنے قریب بٹھاؤ، یہاں تک کہ انہیں بولنے کا حوصلہ ملے اور ان کے دل میں جرأت پیدا ہو، غریبوںکا خیال رکھو، انہیں دیر تک انتظار نہ کراؤ کہ وہ مایوس ہوکر واپس لوٹ جائیں، حبِ جاہ، حبِ مال اور نفسانی خواہشات سے اپنے نفس کو محفوظ رکھو، حتی الامکان فریقینِ مقدمہ کے درمیان مصالحت کی کوشش کرو، (کِتَابُ الْخَرَاج لِلْاِمَام اَبیْ یُوسُف)‘‘۔
ایک مرتبہ آپ کے عہد خلافت میں ایک شخص آپ کی خدمت میں اپنی فریاد لے کر حاضر ہوا اور کہا: امیر المومنین! مصر کے گورنر عمرو بن العاص کے بیٹے محمد بن عمرو نے میری پشت پر آٹھ کوڑے مارے ہیں، وہ کہتا ہے: میں گورنر کا بیٹا ہوں، آپ نے حکم دیا: محمد بن عمرو کو گرفتار کرکے لائو اور عمرو بن العاص کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا۔ محمد بن عمرو گرفتار کرکے لائے گئے، آپ نے اُس سے کہا: گورنر کے بیٹے محمد بن عمرو کی پشت پر آٹھ کوڑے مارو، اُس شخص نے گورنرکے بیٹے کی پشت پر کوڑے مارے، سیدنا عمربن خطاب نے اُس آدمی سے کہا: اب عمرو بن العاص کی پشت پر بھی ایک کوڑا مارو تاکہ اسے پتا چلے کہ اس کا بیٹا کیا کرتا ہے، اس پر اُس شخص نے کہا: امیرالمومنین !عمرو بن العاص نے مجھے کوئی کوڑا نہیں مارا، میں انہیں معاف کرتا ہوں، اس کے بعد سیدنا عمر نے جم غفیر کے سامنے گورنر مصر سیدنا عمرو بن العاص سے مخاطب ہوئے اور ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: عمرو بن العاص! تم نے لوگوں کوکب سے اپنا غلام سمجھنا شروع کردیا ہے، ان کی ماؤں نے تو انہیں آزاد جنا تھا، سیدنا عمرو بن عاص نے کہا: امیر المومنین! نہ مجھے اس واقعے کا علم ہے اور نہ یہ شخص میرے پاس اپنی شکایت لے کر آیا، (کنز العمال)‘‘۔
آپ نے اپنے عہد خلافت میں حربی تاجروں کو دارالاسلام میں آنے اور مسلمانوں کے ساتھ خرید وفروخت کی اجازت دی، عمرو بن شعیب بیان کرتے ہیں: سمندر پار ایک حربی قوم اہلِ مَنْبِجْ نے سیدنا عمر کو خط بھیجا: ہمیں اجازت دیں کہ ہم آپ کی سرزمین میں تجارت کریں، اس کے عوض آپ ہم سے عشر لے لیں، سیدنا عمر نے صحابۂ کرام سے اس بارے میں مشورہ کیا اور اس کی منظوری دیدی۔
آپ ذمیوں کے ساتھ نیک برتاؤ کی تلقین فرمایا کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ نے گشت کے دوران ایک دروازے پر ایک ضعیف العمر نابینا دیکھا، آپ نے اس کی پشت پر ہاتھ رکھ کر پوچھا: تم اہل کتاب کے کس گروہ سے تعلق رکھتے ہو، اس نے جواب دیا: میں یہودی ہوں۔ سیدنا عمر نے پوچھا: گداگری کی نوبت کیسے آئی، یہودی نے کہا: اس کا سبب جزیہ، بڑھاپا اور روزی کی مجبوری ہے، یہ سن کر آپ اس کا ہاتھ پکڑ کر گھر لائے، اس کی ضرورت پوری کی، پھر بیت المال کے خازن کو لکھا: اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو، خدا کی قسم! یہ انصاف نہیں ہے کہ ہم جوانی میں ان سے جزیہ وصول کریں اور بڑھاپے میں انہیں بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیں، اس کے بعد آپ نے ایسے تمام لوگوں کا جزیہ معاف کرکے بیت المال سے وظیفہ بھی مقرر کردیا، (کِتَابُ الْخَرَاج)‘‘۔
آپ نبی کریم ؐ کے قرابت داروں کا بے حد احترام کرتے اور وظائف میں انہیں ترجیح دیتے تھے، سیدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: جب مدائن فتح ہوا تو سیدنا عمر نے سارا مالِ غنیمت مسجد نبوی میں فرش پر ڈال دیا، سب سے پہلے سیدنا امام حسن تشریف لائے اور فرمایا: امیر المومنین! اللہ تعالیٰ نے مالِ غنیمت میں سے ہمارا حق دیں، آپ نے انہیں ایک ہزار درہم دیے، پھر سیدنا حسین تشریف لائے، اُنہیں بھی ایک ہزار درہم دیے، پھر آپ کے بیٹے عبداللہ تشریف لائے تو آپ نے اُنہیں پانچ سو درہم دیے، اُنہوں نے کہا: امیر المومنین! میں نبی کریمؐ کے عہدِ مبارک میں جوان تھا، میں آپ کے ہمراہ جہاد میں شریک ہوتا تھا، جبکہ حضرات حسن و حسین اس وقت چھوٹے بچے تھے، مدینہ منورہ کی گلیوں میں کھیلا کرتے تھے، آپ نے انہیں ہزار درہم دیے اورمجھے صرف پانچ سو، میرا حق اُن سے زیادہ ہے۔
سیدنا عمر نے فرمایا: بیٹے! پہلے وہ فضیلت تو حاصل کرو جو حسنین کریمین کو حاصل ہے، پھر مجھ سے ہزار درہم کا مطالبہ کرنا، ان کے والد علی المرتضیٰ، والدہ فاطمۃ الزہراء، نانا رسولِ خدا، نانی خدیجۃ الکبریٰ، چچا جعفرِ طیار، پھوپھی اُم ہانی، ماموں ابراہیم بن رسول اللہ اور خالہ رقیہ واُم کلثوم ہیں، یہ سن کر سیدنا عبداللہ خاموش ہوگئے، (اَلرِّیَاضُ النَّضْرَۃ)‘‘۔
آپ کے عہدِ خلافت میں ایک دن سیدنا حسن آپ کے پاس تشریف لائے اور دیکھا: آپ کے بیٹے عبداللہ حاضری کی اجازت طلب کرنے کے لیے کھڑے ہیں اور اُنہیں اجازت نہ ملی، سیدنا حسن یہ خیال کرکے واپس تشریف لے گئے کہ جب اُنہوں نے اپنے بیٹے کو اجازت نہیں دی تو مجھے کب دیں گے، سیدنا عمر کو معلوم ہوا تو آپ نے فوراً انہیں بلایا اور فرمایا: مجھے تمہارے آنے کی اطلاع نہیں تھی، سیدنا حسن نے فرمایا: میں اس خیال سے واپس چلا گیا کہ جب آپ نے اپنے بیٹے کو اجازت نہیں دی تو مجھے کب دیں گے، سیدنا عمر نے فرمایا: خدا کی قسم! تم اجازت کے سب سے زیادہ مستحق ہو، عمر کے سر پر یہ جو بال اُگے ہیں، یہ اللہ کے بعد تمہارے سوا کس نے اُگائے ہیں، (یعنی رسول اللہؐ کی برکت ہے)، فرمایا: آپ جب چاہیں، بغیر اجازت آجایا کریں، (اَلصَّوَاعِقُ الْمُحْرِقَۃ)‘‘۔
ایک بار سیدنا عمر سیدہ فاطمہ زہراؓ کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا: فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو نبی کریمؐ کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز نہیں، (اَلْمُسْتَدْرَکْ لِلْحَاکِم)‘‘۔
سیدنا عمر کی فتوحات پر ایک نظر ڈالی جائے تو عقل حیران رہ جاتی ہے، آپ کے دس سال چار ماہ کے عرصۂ خلافت میں 2251030مربع میل علاقہ فتح ہوا، بڑے بڑے علاقے مثلاً: شام، مصر، عراق، جزیرہ، کرمان، خراسان، خوزستان، آرمینیا، آذربائیجان اور فارس آپ کے دورِ خلافت میں فتح ہوئے۔ آپ کے عہدِ خلافت میں ایک ہزار چھتیس شہر اپنے ملحقات سمیت فتح ہوئے، چار ہزار مساجد تعمیر ہوئیں، جامع مساجد کے محراب میں نو سو منبر بنائے گئے، کوفہ، بصرہ، جیزہ، فسطاط اور موصل کے نام سے نئے شہر آباد ہوئے۔