سوئی سدرن گیس کی انوکھی منطق

699

یہ کوئی 2 سال کا عرصہ گزرا ہوگا کہ جب ہم نے ایک نئے دفتر میں قدم رکھا۔ یہ دفتر کافی عرصے سے بند تھا اور ہماری کمپنی یہاں اپنا برانچ آفس بنانا چاہتی تھی۔ دفتری امور ہماری ذمے داری تھیں۔ چناں چہ صفائی ستھرائی کے بعد سب سے پہلے ہم نے بجلی اور ٹیلی فون کے بل چیک کیے جو کئی ماہ سے جمع نہیں کرائے گئے تھے کیوں کہ یہ دفتری معاملہ تھا اسی لیے نہ فون بند ہوئے تھے اور نہ ہی بجلی کٹی تھی۔ ہم نے شکر ادا کیا بقایاجات کے ساتھ تمام بل کلیئر کرائے۔ اس کے بعد سلسلہ چلتا رہا، بل آتا اور ہم جمع کرادیتے پھر اچانک ایک ماہ بجلی کے دو بل موصول ہوئے ایک ماہوار بل تھا اور دوسرا Re-Connection Charges کا بل تھا جس نے ہمارا دماغ چکرا دیا کہ بجلی کٹی نہیں اور ری کنکشن چارجز لاگو ہوگئے۔ چناں چہ ہم بہادرآباد کسٹمر سینٹر جا دھمکے جہاں ہم سے پہلے ہی ایک ہجوم تھا۔ ٹوکن لے کر انتظار میں بیٹھ گئے گرم ماحول میں کمرے کی ٹھنڈک بھی ذہن پر گراں گزر رہی تھی۔ کائونٹر والے نے ہمارا ماجراہ سنا تو ہمیں اندر دفتر میں جانے کا اشارہ کیا، وہاں موجود صاحب نے ہمارا مدعا سنا پھر کمپیوٹر پر انگلیاں چلائیں اور یوں گویا ہوئے کہ یہ درست ہے کہ آپ کا کنکشن منقطع نہیں ہوا مگر جب آپ نے چار پانچ ماہ بل نہیں بھرا تو آپ ہمارے سسٹم سے کٹ گئے اور جب آپ نے بل بھر دیا تو آپ ہمارے سسٹم پر بحال ہوگئے اور یہ چارجز اسی بحالی کے ہیں جس کو ری کنکشن چارجز کا نام دیا ہے اور یہ قانون ہم نے نہیں بنایا بلکہ نیپرا نے بنایا ہے اور اس کی وصولی کا طریقہ کار بھی وضع کیا ہے اور ساری تفصیل بل کی پشت پر درج ہے۔ اب ہم سوائے ندامت کے کچھ نہ کرسکے اور بل بھر کے جان چھڑائی۔ کے الیکٹرک نے ری کنکشن چارجز متعارف کرایا تو سوئی سدرن گیس کمپنی نے جی ایس ڈی کی نوید سنائی۔ جی ایس ٹی یعنی جنرل سیلز ٹیکس تو سنا تھا یہ جی ایس ڈی کیا ہے؟۔ یہی جاننے کے لیے گیس کمپنی کے کسٹمر سروس جا پہنچے، کسی زمانے میں یہاں کوّے بولا کرتے تھے مگر اب تو انسانوں کے قدم رکھنے کی بھی جگہ کم پڑ رہی ہے۔ کافی دیر باہر دفتر کے تپتی دھوپ میں تپتے رہے پھر جب اندر گئے تو یہاں کا تو پورا ماحول ہی تپ رہا تھا۔ تین چار قطاریں ہونے کے باوجود بھی لوگ افراتفریح میں پریشان حال ہاتھوں میں بل تھا میں اِدھر سے اُدھر مارے مارے پھر رہے تھے۔ خیر سے ایک صاحب تک ہماری رسائی ہوئی تو انہوں نے اوپر دفتر جانے کو کہا وہاں جو موصوف تھے انہوں نے بل ہمارے سامنے رکھا اور انگلی کے اشارے سے کہا یہ جی ایس ڈی یعنی گیس سپلائی ڈیپازٹ جو آپ سے برسہا برس قبل جب آپ نے کنکشن لیا تھا وصول کیا گیا تھا اب اس میں مزید اضافہ کرکے Additional GSD کے نام سے وصول کیا جائے گا جس کی تفصیل بل کے پشت پر درج ہے جو کچھ یوں ہے۔ ’’گیس سپلائی ڈیپازٹ (GSD) کا تعین صارف کے گزشتہ سال کے دوران ہونے والے گیس کے کل خرچ کی بنیاد پر ہوگا اور تین ماہ کے گیس کے خرچ کے برابر رقم کی صورت میں صارف سے وصول کیا جائے گا‘‘۔
یہ ہوئی منطق کہ جس کا سر ہے نہ پیر۔ پہلے بجلی والوں نے ری کنکشن کے نام پر لوٹا اور اب گیس کمپنی والے تو ان سے بھی بازی لے گئے۔ انہوں نے تو صرف ایک ماہ چارجز لیے گیس والے تو مسلسل تین ماہ تک ایڈیشنل جی ایس ڈی وصول کررہے ہیں اور یہ رقم سرکاری خزانے کے نام پر بڑی بڑی تنخواہیں لینے والے افسران کی مراعات پر خرچ کی جائے گی۔ اگرچہ گیس کمپنی والے یہ بھی لکھتے ہیں کہ یہ رقم قابل واپسی ہے اور کنٹریکٹ کی منسوخی (کنکشن کا خاتمہ) کی صورت میں صارف کو واپس کردیا جائے گا۔ یہ قابل واپسی کی بھی خوب کہی۔ گیس کمپنی سے رقم واپس نکلوانا اتنا آسان نہیں کہ یہاں تو ہر اک منہ کھولے بیٹھا ہے۔ دوسرے صارف کی جانب سے کنٹریکٹ منسوخی کا تو نمبر نہیں آتا اگر وہ جائداد فروخت کرتا ہے تو پہلی شرط ہی یہ ہوتی ہے کہ بجلی، گیس، پانی کے بل کلیئر کرائیں۔ اس طرح کنکشن ختم تو نہیں ہوتا البتہ نئے مالک کو بل اپنے نام منتقل کرانا پڑتا ہے۔ اب اس منتقلی پر کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور کتنے اخراجات آتے ہیں ہم اس سے ناواقف ہیں۔
جماعت اسلامی نے کے الیکٹرک کے خلاف بھرپور جدوجہد کرکے کم از کم بل کی مد میں کافی آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ بل سے بینک چارجز ار میٹر رینٹ کے خاتمے کے ساتھ ہی ایکسٹرا میٹر لگانے کی سہولت دی ہے۔ پہلے چار منزلہ مکان پر بھی ایک ہی بجلی کا میٹر لگا ہوتا تھا بل آتا تو مکین آپس میں تقسیم کرلیا کرتے
تھے، مگر اب سلیب سسٹم کی وجہ سے انتشار پیدا ہوجاتا ہے۔ جماعت اسلامی کی جدوجہد کے نتیجے میں اب ہر گھر میں ایکسٹرا میٹر باآسانی لگائے جارہے ہیں وہ بھی صرف 5 ہزار روپے کے عوض جس کی ادائیگی بھی نقد نہیں بلکہ بل کے ساتھ ہی ادا کرنا ہے۔ جس کی قسط وار ادائیگی کی سہولت بھی دی جارہی ہے جب کہ گیس کے میٹر لگاتی تو کمپنی ہی ہے مگر اس کا اجازت نامہ اپنے ایجنٹ کے ذریعے جاری کیا جاتا ہے، یہ وہ ایجنٹ ہوتے ہیں جنہوں نے کمپنی کا ایجنٹ بننے کے لیے رقم لگائی ہوتی ہے تو پھر اب اس کی وصولی تو عوام ہی سے کریں گے۔ چناں چہ یہ ایجنٹ حضرات ببانگ دہل ایکسٹرا میٹر کے 16000 روپے سے لے کر 20000 روپے تک طلب کررہے ہیں وہ بھی نقد۔ جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ ہمیں بھی فائل آگے بڑھانے کے لیے بہت کچھ آگے بڑھانا پڑتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہزاروں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی صارف کو 40 روپے ماہانہ میٹر رینٹ بھی دینا پڑتا ہے۔ ایسے میں اہل کراچی کی نظریں صرف اور صرف جماعت اسلامی پر مرکوز ہیں۔ چناں چہ ہم امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کو یہ بات گوش گزار کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح آپ کی ولولہ انگیز قیادت نے کے الیکٹرک جیسے منہ زور گھوڑے کی لگامیں کسی ہیں اسی طرح اس بے ہنگم گھوڑی کی بھی رکابیں کھینچ دیں اور عوام سے جی ایس ڈی کے نام پر لوٹا گیا پیسا واپس کرائیں اور نئے میٹر کی تنصیب کو آسان اور ارزاں بنائیں کہ اہل کراچی کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں سب سیاست کررہے ہیں جب کہ جماعت اسلامی اہل کراچی کے لیے جہد مسلسل کی عملی تصویر ہے۔