منظم طریقے سے نقل کا رحجان کرپشن کا نتیجہ ہے،ملکی بقا و ترقی کیلئے روک تھام ناگزیر ہے

434

کراچی(رپورٹ:حماد حسین)نقل کلچر ایک ناسوربن کر ملک کی جڑوں میں سرایت کر گیا ہے۔جو ہماری قوم کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیل رہا ہے۔سندھ بشمول کراچی میںنقل کارجحان بڑھے گا تو طلبہ میں پڑھائی کا رجحان بتدریج کم اور ان میں تخلیقی صلاحیت اور سیکھنے کا عمل ختم ہو جائیگا۔آج کا نوجوان کل کا معمار ہے اگر یہ بد دیانت اور نالائق ہوا تو ہمارا مستقبل بھی بھیانک و تاریک ہوگا ۔بے لگام اور منظم طریقے سے نقل دراصل کرپشن کا نتیجہ ہے ۔ نقل کرنے والے طلبہ میں اعتماد کا فقدان ہو گا اوریہ معاشرے میں ایسا جان لیوا کینسر پیدا کررہے ہیں جو معاشرے کی فلاح و بہبود کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔لہٰذا نقل کی روک تھام ہماری قومی و ملی زندگی کی بقا اور ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ان خیالات کا اظہاراعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ، کراچی کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین ،چیئرمین بورڈ آٖف سکینڈری ایجوکیشن کراچی سید شرف علی شاہ ،چیئرمین آل پرائیوٹ اسکول اینڈ کالجز حیدر علی اور سابق ممبربورڈ آٖف سکینڈری ایجوکیشن کراچی عبا س بلوچ نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ، کراچی کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین کا کہنا تھا کہ سندھ میں بشمول کراچی میں نقل کارجحان بڑھے گا تو طلبہ میں پڑھائی کا رجحان بتدریج کم ہو جائے گا اور ان میں تخلیقی صلاحیت اور سیکھنے کا عمل ختم ہو جائیگا۔نقل کر کے پاس ہونے والے طالبعلم اگلی کلاس میں تو چلا جائے گا مگر اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہو جائے گی۔نقل کا رجحان کسی بھی معاشرے کے لیے بہتر نہیں ہے۔اس کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کرنی چایئے۔اور اس کو ختم یا کم کرنے کے لیے میکینزم بنانا چاہیے۔جب تک ہم تعلیمی اداروں میں سیکھنے کے عمل کو بہتر اور ماحول کو پڑھائی کے سازگار نہیں بنائیں گے۔ تب تک طالبعلم میں پڑھائی کا رجحان پیدا نہیں ہوگا۔نقل کے خاتمے کے لیے یہ دیکھنا ہو گا کہ تعلیمی اداروں میں ہر مضمون کا استاد موجود ہے کہ نہیں۔کئی تعلیمی اداروں میں کچھ مضامین کے استاذہ زیادہ ہے اور کئی مضامین کے سرے سے ہی کم ہے‘ یہ کمی پورا کرنا تعلیمی ادارے کی ذمے داری ہے۔ایک بات اور بھی دیکھنی چاہیے کہ ہم تعلیمی اداروں میں پڑھا کیا رہے ہیں اور امتحان کس کا لے رہے ہیں۔ہمیں امتحا ن بھی انہیں مضامین کا کرائیں جوکہ پڑھا جائے۔چیئرمین بورڈ آٖف سکینڈری ایجوکیشن کراچی سید شرف علی شاہ کا کہنا تھا کہ افراد انسانی کا اجتماعی ڈھانچہ معاشرہ کہلاتا ہے یہ ایک ایسا گروہ ہے جن کی بنیادی ضروریات زندگی میں ایک دوسرے سے مشترک روابط موجود ہو ں۔معاشرے کے ایسے تصور کے لیے قرآن پاک میں ارشاد ہے”تم اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو”اس ضمن میں اگر نقل کے معانی دیکھے جائیں تو وہ ناجائز ، بے ایمانی، یا غیر منصفانہ عمل ہے جو کسی بھی قسم کا ناجائز فائدہ حاصل کرنے کے لیے کیا جائے ۔ نقل کا موازنہ چوری سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ نقل کے ذریعے ہم وہ چیز حاصل کر رہے ہوتے ہیں جس کے ہم حق دار نہیں ہوتے جو شرعاً اور اخلاقاً دونوں اعتبار سے ناجائز ہے۔علم افراد کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور سیرت و کردار کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ جس طریقے سے لوگوں کو زیور علم سے آراستہ کیا جاتا ہے اسے نظام تعلیم کہتے ہیں۔ نظام تعلیم اس طرح کا ہونا چاہیے جس سے طلبہ کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو اور ان میں بلند کردار پیدا ہو۔اگر یہی نوجوان نقل کرکے میدان عمل میں اتریں گے تو ڈاکٹر، نیم حکیم خطرہ جان ثابت ہوں گے، انجینئر پل اور عمارتیں صرف کاغذ پر ہی بنا پائیں گے۔ان میں اعتماد کا فقدان ہوگا ۔یہ معاشرے میں ایسا جان لیوا کینسر پیدا کریں گے جو معاشرے کی فلاح و بہبود کو دیمک کی طرح چاٹ لے گا۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ملک دشمن عناصر چند پیسوں کے عوض طلبہ کو امتحانات میں نقل کراتے ہیں، ایسے ماحول میں وہ طالب علم جو وسائل نہیں رکھتا مگر غیور اور محنتی ہے وہ کامیابی سے محروم رہ جاتا ہے اور عملی میدان میں وہ لوگ سامنے آتے ہیں جن کے پاس اونچی سفارش ہوتی ہے۔آج کا نوجوان کل کا معمار ہے اگر یہ بد دیانت اور نالائق ہو گا تو ہمارا مستقبل بھی بھیانک اور تاریک ہوگا لہذا نقل کی روک تھام ہماری قومی و ملی زندگی کی بقا اور ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔چیئرمین آل پرائیوٹ اسکول اینڈ کالجز حیدر علی کا کہنا تھا کہ یوں تو نقل کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی امتحان کی تاریخ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نقل جرم نہیں ہے بلکہ ایک ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔یہ جرم تب بنتی ہے جب نقل میں پیسہ شامل کر دیا جاتاہے جس کے سبب اس میں ملوث افراد تمام اخلاقی اور قانونی حدود پار کر لیتے ہیں۔ بے لگام اور منظم طریقے سے سے ہونے والی نقل دراصل کرپشن کا نتیجہ ہے جسکی ابتدا پری ایگزام فیز میں امتحانی مراکز بنوانے اور ان میں اسکولز فکس کرانے سے ہوتی ہے۔جس کے ذمہ دار بورڈ کا متعلقہ عملہ اور وہ بیرونی افراد جو اس عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں ان کے علاوہ امتحانی مراکز کے سینٹر سپرنٹنڈنٹس بھی اس کے ذمہ دار ہیں ۔ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم تمام مراحل سے پیسے کی لعنت کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور جب تک محکمہ تعلیم امتحانی عمل کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھے گا اس وقت تک نقل کا ختم ہونا بھی نا ممکن ہے کیونکہ بورڈ صرف ایک ایگزامینیش باڈی ہے اور سارا امتحان ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کا عمل ہے اس کیلیے بورڈ اور محکمہ تعلیم کو مکمل اور مربوط منصوبہ بندی کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔سابق ممبر بورڈ آٖف سکینڈری ایجوکیشن کراچی عبا س بلوچ کا کہنا تھا کہ نقل قوموں کو تباہ کردیتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ پچھلے چند سالوں میں پاکستان کے تعلیمی نظام میں نقل کا رجحان زیادہ ہوتا جارہا ہے۔ بالخصوص سندھ اور کراچی میں نقل کی طرف رجحان میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ جس سے ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک منظم سازش ہے تا کہ یہاں کے بچوں کو تعلیمی میدان میں پیچھے کیا جارہا ہے۔ کیونکہ ایک وقت تھا جب پاکستان میں کہیں بھی مقابلہ کا امتحان ہوتا تو سندھ اور کراچی سے زیادہ طلبہ کے امتحان میں نہ صرف شریک ہوتے بلکہ منتخب بھی ہوتے۔ لیکن اب چند سالوں میں یہ صورتحال دیکھنے میں آرہی ہے کہ سندھ اور کراچی کے طلبہ مقابلہ کے امتحان میں باقی صوبوں کے مقابل کم منتخب ہوتے ہیں۔لیکن اس طرح کی جو سازش ہے اس میں جتنے مجرم طلبہ ہیں اتنے ہی والدین اور اساتذہ بھی شامل ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ طلباء کی کردار سازی نہیں کی جاتی۔ اسی وجہ سے وہ جرم کا حصہ بنتا ہے۔ اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ طلباء کو جس راستہ پر لگادیا جاتا ہے وہ اسی راستہ پر چل پڑتے ہیں، کیونکہ وہ پختہ ذہن کے مالک نہیں ہوتے، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کی اس طرح سے کردار سازی کی جائے اور انہیں یہ باور کرایا جائے کہ نقل ایک قومی جرم ہے تو طلبہ اس راستہ پر نہ چلیں۔ اس طرح سے ہم تعلیمی نظام تو امید تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں۔