آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات اور تحریک آزادی

387

آزاد کشمیر میں عام انتخابات باہمی الزام تراشی، گالم گلوچ اور کرپشن کی بنیاد پر لڑے گئے اور اس کا نتیجہ بھی وہی برآمد ہوا جس کی توقع کی جارہی تھی۔ حالانکہ یہ وہ خطہ ہے جسے کشمیر کی آزادی کا بیس کیمپ کہا جاتا ہے۔ مراد یہ کہ اس خطے میں بیٹھ کر مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کو تیز سے تیز تر کیا جائے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظلوم بھائیوں کو ہر ممکن سیاسی، اخلاقی اور مادی حمایت فراہم کی جائے گی اور آزاد خطے میں برسر عمل تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں تحریک ِ آزادی کے یک نکاتی ایجنڈے پر اتفاق رائے کا مظاہرہ کریں گی لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ وہ آپس میں اُلجھ کر رہ گئیں اور محض آزاد کشمیر کا اقتدار ان کی منزل بن گیا، ہمیں یاد ہے کہ مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عبدالقیوم خان (مرحوم) آزاد کشمیر میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کے قیام کے شدید مخالف تھے ان کا موقف تھا کہ اس طرح آزادی کی جدوجہد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور یہ خطہ اپنے اصل مقصد سے ہٹ کر سیاسی محاذ آرائی کا گڑھ بن جائے گا لیکن ان کی کسی نے نہیں سنی۔ ذوالفقار علی بھٹو سقوط ِ مشرقی پاکستان کے بعد جب باقی ماندہ پاکستان کے وزیراعظم بنے اور شملہ میں بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کے ساتھ مذاکرات کے بعد اسلام واپس آئے تو وہ آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے پر تلے ہوئے تھے لیکن پاکستانی اور کشمیری سیاستدانوں خاص طور پر سردار عبدالقیوم خان مرحوم کی شدید مزاحمت کے نتیجے میں انہوں نے ارادہ بدل دیا۔ البتہ انہوں نے مخالفت کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کے قیام کا اعلان کر دیا۔ پھر ان کی دیکھا دیکھی دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی آزاد کشمیر میں اپنی شاخیں قائم کر دیں اور آزاد خطہ جو آزادی کا بیس کیمپ کہلاتا تھا، پاکستانی سیاست کا گڑھ بن گیا آزادی کی جدوجہد پس منظر میں چلی گئی اور ساری توجہ آزاد کشمیر میں اپنی حکومت بنانے پر مرکوز ہو گئی۔
جماعت اسلامی کو یہ استثناء حاصل ہے کہ اس نے آزاد کشمیر میں اپنی سرگرمیاں شروع کیں تو اس کا واحد مقصد یہ تھا کہ مقبوضہ علاقے کو بھارتی قبضے سے چھڑایا جائے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب آزاد کشمیر میں مقیم جماعت اسلامی کے ہمدردوں نے آزاد علاقے میں جماعت اسلامی کے احیاء کا فیصلہ کیا تو بانی جماعت سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے مشاورت کی گئی۔ سید مودودیؒ ابتدا میں اس کے حق میں نہ تھے کیونکہ سردار عبدالقیوم خان نے ان سے ملاقات کر کے انہیں یقین دلایا تھا کہ مسلم کانفرنس جماعت اسلامی کے مشن کو لے کر چل رہی ہے اس لیے آپ ہماری سرپرستی اور رہنمائی فرمائیں لیکن جب سید مودودیؒ کو بتایا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں تو جماعت اسلامی برصغیر کی تقسیم سے پہلے کام کر رہی ہے اور آزاد کشمیر میں اس کا قیام محض اس کی توسیع ہے تو پھر آپ بادل ناخواستہ اس پر آمادہ ہو گئے چنانچہ سید مودودیؒ کی اجازت سے جماعت اسلامی آزاد کشمیر کا قیام عمل میں آیا اور مولانا عبدالباری اس کے پہلے امیر منتخب ہوئے۔ مولانا عبدالباری اس سے پہلے مسلم کانفرنس میں شامل تھے لیکن سردار عبدالقیوم خان کے ساتھ تحریک آزادی کے معاملے پر اختلافات کے سبب وہ مسلم کانفرنس سے الگ ہونے پر مجبور ہو گئے تھے۔ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کی امارت سنبھالتے ہی انہوں نے اس کی تنظیم سازی پر توجہ دی اور پورے آزاد کشمیر کا طوفانی دورہ کیا۔ مولانا عبدالباری ’’بے باک‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ بھی نکالتے تھے جس کی ادارت کی ذمے داری راقم الحروف کے سپرد تھی۔ چنانچہ اس دورے میں راقم بھی ان کے ساتھ تھا۔ مولانا عبدالباری نے جگہ جگہ اجتماعات سے خطاب کیا، معززین سے ملاقاتیں اور ان پر جماعت اسلامی کی اہمیت و ضرورت واضح کی۔ ان کا یہ دورہ بہت کامیاب رہا اور پورے آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی ایک موثر سیاسی قوت کی حیثیت سے منظر عام پر آگئی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان میں روس کی یلغار کے خلاف جہاد جاری تھا۔ مولانا عبدالباری چاہتے تھے کہ افغانستان کی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی جہاد کا غلغلہ بلند ہو اور ریاست جموں و کشمیر کی آزادی کو یقینی بنایا جا سکے۔ چنانچہ انہوں نے پاکستانی پاسپورٹ پر مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا جماعت اسلامی کے قائدین اور دیگر زعماء سے ملاقاتیں اور مقبوضہ علاقے میں جہاد شروع کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا۔ بعد میں جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے امیر مولانا سعد الدین پاکستان تشریف لائے اور پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں۔ جنرل ضیاء الحق اس وقت افغان جہاد کو لیڈ کر رہے تھے اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا نقشہ بھی ان کے ذہن میں موجود تھا۔ چنانچہ ان ملاقاتوں اور صلاح مشورے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھی جہاد کا غلغلہ بلند ہو گیا۔ مقبوضہ علاقے میں جہاد جاری تھا کہ امریکا نے طیارے کے حادثے میں جنرل ضیاء الحق کو شہید کرا دیا اور 2001ء میں نائن الیون برپا کر کے پوری دنیا میں مسلمانوں پر قیامت برپا کر دی۔ امریکا نے بھارت کی ہم نوائی میں جہاد کشمیر کو دہشت گردی قرار دے دیا۔ پاکستان میں برسراقتدار جنرل پرویز مشرف پر دبائو ڈال کر مجاہدین کی نقل و حرکت پر پابندی لگوا دی اورجہاد کشمیر کے گرد گھیرا تنگ کر دیا۔
جنرل پرویز کے بعد جو سول حکومتیں آئیں انہیں مقبوضہ کشمیر کی آزادی سے زیادہ بھارت کے ساتھ دوستی کی فکر لاحق تھی۔ میاں نواز شریف ہوں، آصف زرداری ہوں یا اب عمران خان۔ سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ ان کے پاس مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اندازہ کیجیے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام گزشتہ دو سال سے لاک ڈائون کی زد میں ہیں۔ بھارت نے ان کے تمام انسانی حقوق سلب کر لیے ہیں اور پورے مقبوضہ علاقے میں قتل و غارت گری اور دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے لیکن آزادکشمیر کے حالیہ انتخابات میں یہ موضوع ہی زیربحث نہ تھا۔ تمام سیاستدان ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے اور کیچڑ اچھالتے رہے۔ صرف جماعت اسلامی نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے واضح منشور کے تحت انتخابات میں حصہ لیا لیکن جھوٹ کے مقابلے میں ہار گئی۔ جب تک آزاد کشمیر کے عوام جھوٹ اور فریب کے مقابلے میں سچ کا ساتھ نہیں دیں گے مقبوضہ کشمیر کی آزادی خواب و خیال بنی رہے گی۔