طالبان، عورت اور یوان رڈلے

1085

برطانیہ کی معروف خاتون صحافی یوان رڈلے سے میری پہلی ملاقات نیویارک میں ہوئی تھی۔ وہ کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) نیویارک کی ایک تقریب میں مہمان مقرر تھیں۔ وہ دیگر مقررین کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھی تھیں۔ پروگرام ختم ہوتے ہی میں نے اپنے اخبار مسلمز ویکلی کا تازہ شمارہ اپنے بزنس کارڈ کے ساتھ ان کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے شوق سے وصول کیا تو میں نے ان کے سامنے ایک گزارش رکھ دی کہ آپ اس اخبار کے ادارتی صفحہ کے لیے ویکلی کالم لکھیں۔ انہوں نے اسے فوراً قبول کر لیا۔ اس وقت (2002) سے ان کا کالم اخبار کے آخری شمارہ (جو اپریل 2006 کا کوئی ہفتہ تھا) تک شائع ہوتا رہا۔ جس وقت انہوں نے کالم شروع کیا تھا اس وقت وہ مسلم نہیں تھیں۔ 2003 کے وسط میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔
یوان رڈلے انگلینڈ سے شائع ہونے والے کئی بڑے اخبارات سے منسلک رہ چکی تھیں۔ جب2001 کے ستمبر گیارہ کو دو ہوائی جہاز نیویارک کے جڑواں ٹاور سے ٹکرائے اور دونوں عمارتیں زمیں بوس ہوئیں، اور جس میں تقریباً تین ہزار لوگ ہلاک ہوئے تو یہ خبر اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی خبر تھی۔ رِڈلے اس وقت لندن کے سنڈے ایکسپریس کی رپورٹر تھیں، وہ کوریج کے لیے فوراً نیویارک آئیں۔ لیکن اخبار کے ذہین اور باخبر ایڈیٹر نے اسی وقت جان لیا کہ اب اصل خبر نیویارک میں نہیں بلکہ افغانستان سے نکلنے والی ہے، جب کہ امریکا اس پر بمباری کرے گا۔ یوان رڈلے کو پاکستان بھیج دیا گیا۔ ایڈونچر پسند تفتیشی صحافت کی ماہر یوان رڈلے برقع پہن کر افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ دو دنوں کے بعد ہی امریکی جاسوس ہونے کے شک میں انہیںطالبان نے 28 ستمبر 2001 کو گرفتار کر لیا۔ بعد ازاںگیارہ دنوں کے بعد انہیں آزاد کر دیا گیا۔ وہ واپس انگلینڈ پہنچ گئیں۔ مغرب اور پوری دنیا کا ابلاغیہ ان کی باتیں، اور طالبان کے ایک قیدی کے تجربات کو براہ راست سننے کے لیے جمع ہو گیا تھا۔ وہ اس خاتون صحافی پر کیے گئے ”طالبانی“ تشدد، جسمانی اذیت کے نشانات دیکھنے، اس کی تصاویر اور ویڈیو بنانے اور اسے نشر کرنا چاہتے تھے۔ ابلاغیہ کا ایک جم غفیر ان کے چاروں طرف جمع تھا۔ میڈیا کانفرنس میں یوان رڈلے نے تشدد اور اذیت کے نشان کے بجائے طالبان کی مہمان نوازی، تواضع، وسیع القلبی، ان کا خواتین کے ساتھ احترام کا رویہ، ان کی حیا، ان کی جھکی نگاہیںاور ان کے شرمیلے پن کی کہانی بیان کی۔ مغربی ابلاغیہ کے افراد کچھ حیرت میں، کچھ غصے میں، اور کچھ سکتے میںتھے۔ سب منہ بسورے، آوازیں نکالتے، کستے واپس ہو گئے۔ ایک خبر جو وہاں کی شہ سرخی بننے والی تھی اب وہ کہیں کہیں ایک کالمی مختصر سی خبر بن کر رہ گئی کہ ”برطانوی صحافی رڈلے، طالبان کی قید سے رہا ہو کر واپس آچکی ہیں“۔
2004 دسمبر میں نیویارک میں ہمارے اخبار کی نیاّ ڈگمگانے لگی تھی۔ اخبار کی پانچویں سالگرہ پر ہم نے ایک تقریب منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اصل مقصد تھا ایک معلوماتی پروگرام کے ساتھ ساتھ فنڈ ریزنگ کا۔ طالبان کی حکومت کا خاتمہ تین سال قبل ہو چکا تھا۔ کابل پر امریکا اور ان کے تمام حواریوں کی مدد سے حامدکرزئی کی کٹھ پتلی حکومت قائم تھی۔ ہمارا اخبار طالبان کا حمایتی مانا جاتا تھا۔ تاہم متنوع مضامین کے باعث اس پر ”انتہا پسندی“ اور ”کٹر پسندی“ کا ٹھپا نہیں لگایا گیا تھا۔ نیویارک انڈیپنڈنٹ پریس کی طرف سے مختلف زمرہ میں گزشتہ کئی سال سے اس اخبار کو بہت سے ایوارڈز مل چکے تھے۔ جن میں سیکنڈ بیسٹ ایڈیٹوریل کالم، سیکنڈ بیسٹ آرٹیکل آن میگزینٹا شوز، اور بیسٹ فوٹوگرافی بھی شامل تھا۔ 2003 میں اس سال حاصل کیے گئے اخبار کے پانچ ایوارڈز کے باعث جن میں تین ایوارڈز میرے لیے تھے، نیویارک کے معروف روزنامہ نیوز ڈے میں میرا انٹرویو شائع ہوا۔ یہ اس اخبار کا کامیاب شخصیات کا پروفائل سیکشن تھا۔ ان وجوہات کے باعث ہمارے مسلمز ویکلی کا اپنا ایک مقام بن چکا تھا۔
طالبان کے بارے میں یہ پروپگنڈا تھا کہ وہ لوگ خواتین کے دشمن ہیں، ان پر تشدد کرتے ہیں، اور ان پر تعلیم کے دروازے بند کرتے ہیں۔ان کے حوالے سے ایک خطرناک تاثر بنایا گیا تھا۔ میں نے اس تقریب میں طالبان کے زیر حراست رہنے والی یوان رڈلے کو بلانے کا فیصلہ کیا۔ رڈلے مغربی تہذیب کی نمائندہ خاتون تھیں۔ وہ فیمنسٹ تھیں اور چین اسموکر۔ اب وہ اسلام قبول کر چکی تھیں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کا یہ پہلا دورہ¿ امریکا تھا اورجو اس تقریب (اخبار کی پانچویں سالگرہ) کی خاص مہمان تھیں۔ تقریب کو ہم نے اپنے دوستوں کی ایک بڑی ٹیم کے تعاون سے بہت خوبصورت بنایا تھا۔ یہ تقریب نیویارک ڈاؤن ٹاؤن میں معروف کولمبیا یونیورسٹی کے مین کیمپس کے قریب کی ایک بڑی عمارت کے چرچ کے ہال میں منعقد ہوئی تھی۔ ہم نے حتی الامکان کوشش کی تھی کہ مردوں کے علاوہ خواتین کی تعداد بھی خوب ہو۔ مختلف اخبارات بشمول نیویارک ٹائمز کی ایک خاتون رپورٹر بھی حاضر ہوئی تھیں۔
یوان رڈلے جس طرح تحریر کی ماہر ہیں، اسی طرح تقریر کی بھی ماہر نکلیں۔ ان کے پاس نہ صرف کہانی اور ناول لکھنے کا ملکہ تھا، اسی طرح یا شاید اس سے بھی زیادہ بہتر انہیں کہانی بیان کرنے پر قدرت حاصل تھی۔ جب انہوں نے افغانستان میں داخل ہونے، طالبان کے ذریعے قید ہونے اور گیارہ دنوں کی اپنی نظر بندی کی جو داستان شروع کی تو ہال میں مکمل خاموشی طاری ہوگئی۔ کئی خواتین اپنے بچوں کے ساتھ آئی تھیں۔ بچے بھی اس وقت رونا بھول گئے۔ ہر فرد ہمہ تن گوش تھا۔ الفاظ اور آواز کا ایک جادو تھا جو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ ایسی کہانی پہلے کسی نے نہ سنی تھی۔ ہمارے لیے بھی ایک نیا تجربہ تھا۔ اس دنیا میں رونما ہونے والی ایک دلچسپ کہانی جس کا مرکزی کردار وہ خود تھیں۔ کہانی ایڈونچر اور حسین و دلچسپ پلاٹ اور واقعات سے بھرپور تھی۔ کہانی سننے کا شوق تو انسانی فطرت ہے جو بچپن ہی سے انسان کو ہوتی ہے۔ ایک شخصیت کی تعمیر و تہذیب میں کہانیوں کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔ یہ کہانی تو حقیقی کہانی تھی، آپ بیتی، آنکھوں دیکھی، تجربہ اور مشاہدہ سے گزری ہوئی۔ بس اسے ایک خاص ترتیب، اور خاص الفاظ کے مرکب کے ساتھ بیان کر دی کی گئی تھی۔
یوان رِڈلے کی تقریر ایک گھنٹہ کی تھی۔ دوران تقریر کوئی اپنی جگہ سے ذرا بھی نہیں ہلا۔ حاضرین کا انتہائی انہماک تھا۔ ہم نے کہانی سننے سنانے کا ایسا منظر پھر کبھی نہیں دیکھا۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ ”ہم نے ان لوگوں سے التجا کی کہ ہمیں اپنے گھر انگلینڈ فون کرنے کی اجازت دو۔ اجازت نہ ملنے پر میں نے بھوک ہڑتال کر دی۔ بھوک ہڑتال ختم کرانے کے لیے پوری وزارت خارجہ متحرک ہو گئی۔ ویسے بھی وہ لوگ قیدیوں کو اپنے سے کہیں بہتر کھانا کھلا رہے تھے۔ بھوک ہڑتال کے بعد تو خوب منت سماجت کرنے لگے۔ پوچھنے لگے کہ کون سا کھانا کھائیں گی، کیا پسند کرتی ہیں، کس ہوٹل سے لے کر آؤں؟۔ وہ بہترین سے بہترین کھانا مہیا کر کے بھوک ہڑتال ختم کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ طالبان تواضع کی بہترین مثال تھے“۔
ان کی کہانی میں بہت سے دلچسپ واقعات تھے۔ کہنے لگیں کہ ہم نے اپنے کپڑے مع زیر جامہ الگنی پر سوکھنے کے لیے لٹکا دیے، طالبان حکومت کے کچھ لوگ آئے، کپڑوں کو دیکھ کر سب آنکھیں بند کر کے بھاگ لیے۔ کہانی کو دلچسپ بنانے کے لیے وہ کہنے لگیں کہ کابل میں طالبان حکومت کے ٹھکانوں پر بمباری کے بجائے اگر ایک جہاز بھر کر صرف بکنی میں عورتیں اُتار دی جاتیں تو طالبان ایسے ہی شرم سے بھاگ جاتے۔
کہانی کا سب سے دلچسپ موڑ وہ آتا ہے جس میں وہ ملا عمر سے ملاقات کی روداد بیان کرتی ہیں۔ انہوں نے نام نہیں لیا لیکن ہر کوئی جان گیا کہ تذکرہ اسی شخص کا ہے۔ ابھی رڈلے کی بھوک ہڑتال جاری تھی کہ ایک صبح وہ شخص نمودار ہوا۔ قید خانے کا دروازہ کھلا۔ ایسا معلوم ہوا کہ ایک شخص آسمان سے اُتر کر تیزی سے ان کی طرف آرہا ہے۔ وہ سفید لباس میں ملبوس اور چادر اوڑھے تھا۔ ایسا لگا کہ کوئی فرشتہ آسمان سے اُتر رہا ہے۔ ایسا لگا جیسے نور کا ایک ہالہ عرش سے فرش پر آیا ہے۔ اس نے سوالات کیے؛ آپ کا دین کیا ہے؟ ادھر سے جواب ملا۔ عیسائیت۔ چرچ آف انگلینڈ سے منسلک۔ دوسرا سوال: کیا آپ اسلام کے بارے میں جانتی ہیں اور تیسرا سوال کیا آپ اسلام قبول کرنا چاہیں گی؟ جواب ملا: قیدی کی حیثیت سے نہیں۔ اگر میں آزاد ہوئی تو خود قرآن پڑھوں گی اور اگر یہ مذہب اچھا لگے گا تو قبول کر لوں گی۔ اس شخص (ملا عمر) نے اسی وعدہ پر رہائی کا حکم دے دیا اور چند دنوں کے اندر یوان ریڈلے اپنے گھر انگلینڈ پہنچ گئیں۔ ایک سال بعد آزادی کے ساتھ اپنی چوائس سے وہ مشرف بہ اسلام ہو گئیں۔
مغرب میں یہ پروپگنڈا ہے کہ اسلام میں عورتوں کے کوئی حقوق نہیں، اور طالبان اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ طالبان کی قیدی رڈلے کہتی ہیں کہ اسلام میں عورتوں کو جو حقوق حاصل ہیں وہ دنیا کے کسی مذہب میں نہیں اور طالبان عورتوں کے اصل قدردان ہیں۔ انگلینڈ میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا اور قبول کیے جانے والا دین اسلام ہے۔ ان میں اکثریت عورتوں کی ہے۔ اور ان عورتوں میں سب سے زیادہ نوجوان لڑکیوں کی ہے۔ ویسے بھی مغرب میں مردوں کی تعداد کم اور ہجڑوں (جنسی منحرفین اور صنفی مرتدین؛ LGBTTIQ) کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ مستقبل قریب میں یہاں کی حقیقی عورتوں کو حقیقی مرد کی تلاش میں افغانستان کے دَرَّہ اور پہاڑوں میں ہی جانا ہوگا۔