حکومتی ادارے اور حکومتی کارگردگی

338

تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ تہذیب انسانی ازل سے عدل و انصاف ،قانون کی بالا دستی کے قیام کے لیے سرگرداں رہی ہے۔ محسن انسانیت حضور ؐ نے مدینہ منورہ میں جس اسلامی معاشرہ کی بنیاد رکھی ،سماجی انصاف اس کا طرہ امتیاز ہے ۔ آپ ؐ کا یہ شرف عظیم ہے کہ آپ نے نہ صرف قانونی عدل قائم کیا بلکہ سماجی انصاف کا بھی بول بالا فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں بھی آپؐ کا نام نامی نہایت احترام سے لیا جاتا ہے جس کا واضح ثبوت قانون کی عظیم درسگاہ لنکن ان میں آپؐ کا اسم گرامی بطور قانون بخشنے والاثبت ہے۔ اس تحریر کو دیکھ کر قائد اعظم ؒ محمد علی جناح نے اس موثر درسگاہ میں داخلہ لیا تھا۔
قرآن مجید میں قانون کی فراہمی اور انصاف کی اہمیت کے بارے میں جگہ جگہ تذکرہ ملتا ہے ارشاد ربانی ہے : ’’ بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے۔‘‘ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ’’ کسی قوم کی سخت دشمنی(بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے ۔‘‘(المائدہ ،۵:۸)احادیث نبویؐ میں عدل و انصاف کی فراہمی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ جس معاشرے میں باہمی خیر کے قیام اور شر کے مٹانے کی سعی نہیں کی جاتی وہ بالآخر مٹ جاتا ہے۔ فاطمہ نامی خاتون جو کہ ایک بڑے قبیلے سے تعلق رکھتی تھی چوری کرنے کے باعث ان کا ہاتھ کاٹ دیا گیا اور ان کے حق میں کسی کی سفارش قبول نہیں کی گی۔ یہی درس اسلام کا ہے کہ قانون اور انصاف سب کے لیے برابر ہے۔ اس میں کسی غریب یا امیر کی کی تفریق پر فیصلے نہیں کیے جانے چاہیے۔ اسی طرح خلفاء راشدین نے اپنے اپنے ادوار میں انصاف کا بول بالا کیا اور ظلم کی آواز کو پست کیا ۔
کسی بھی ریاست میں حکومتی معاملات کی
انجام دہی میں اہم اور بنیادی کردار ادا کرنے والے تین بڑے ادارے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک قانون سازی کرنے والاادارہ ’’ مقنّنہ‘‘ ہے، دوسرا مجلس قانون ساز (مقننہ) کے مرتب کردہ قوانین کو ان کی روح کے مطابق نافذ کرنے اور انتظام مملکت چلانے والا ادارہ انتظامیہ ہے۔ حکومت کا تیسرا بڑا ادارہ عدلیہ ہے جس کا مقصد ریاست میں عدل و انصاف قائم کرنا ہے۔ حکومت کی اعلیٰ کارگردگی کا دارومدار اور انحصار نظام عدل پر ہوتا ہے۔ ایک فرد اور دوسرے فرد کے درمیان ایک ریاست اور فردکے حقوق و فرائض کا توازن قائم رکھنا اور ان کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنا عدلیہ کی حقیقی ذمہ داری ہے۔ انصاف کرنے والی اقوام ہمیشہ سرخرو و بلند رہتی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم چرچل نے انصاف کے حوالے سے ایک تاریخی جلسہ کیا تھا جس کا حوالہ ضروری ہے۔ اگر میرے ملک میں انصاف ہو رہا ہے تو ہم کبھی نہیں ہار سکتے ۔
دنیا بھر میں عدالتی کاروائی چلانے کے لیے دو طرح کے نظام موجود ہیں جنہیں adress aril and inquisitorial systemکہا جاتا ہے ۔پاکستانی عدالتی نظام میں یہ دونوں سسٹم ہی موجود ہیں۔پاکستانی عدالتی نظام کا ڈھانچہ دو اقسام پر مشتمل ہے۔ (۱)superior jodiciary (۲)subordinate jodiciary(۱) superior jodiciary میں ایک سپریم کورٹ، ایک فیڈرل شریعت اور پانچ ہائی کورٹس شامل ہیں۔ جبکہ subordinate jodiciary(2)میں سول کورٹس ،سیشن کورٹس اور دیگرسپیشل کورٹس شامل ہیں۔ حکومت کا کردار عدلیہ کی کارگردگی پر منحصر ہے۔پاکستانی عدالتی نظام دیگر ملکوں کی طرح بہت موثر ثابت نہیں ہوا ۔ world justice project organization ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 128ممالک میں سے 120 نمبر پر ہے۔ انصاف کی فراہمی میں اور دیگر اشیاء کے خطے کی بات کی جائے تو پاکستان بھوٹان، نیپال، بھارت، چین اور ایران سے بہت پیچھے ہے۔ south Asiaمیں صرف افغانستان ہم سے کم درجے میں ہے۔ چیچنیاخود حالت جنگ میں ہے ۔یہ صورتحال پاکستانی عدالتی نظام کی ہے۔ اس بات کا ثبوت ایسے کیسز فراہم کرتے ہیں۔ جسٹس دوست کھوسہ نے 2015 ء میں 14 سال بعد باپ اور بیٹے کی رہائی کا حکم صادر فرمایاجب جیلر ریکارڈ لے کر پہنچاتو پتہ چلا کہ ان کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ پاکستان کی عدلیہ میں 17 لاکھ کے قریب کیس Block lock میں ہیں۔ اس حالت زار کے پیچھے بہت سے عوامل ہیں جن کو اصلاحات کے ذریعے سے ہی بہتر کیا جا سکتا ہے۔ حکومت اور عدلیہ مل کر ہی نظام عدل کو موثر اور مثالی بنا سکتی ہیں جس سے فوری اور سستا انصاف میسر ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کی تقرری کا طریقہ کار سیاسی ہے جس میں Review کی ضرورت ہے ۔ججز کی sporadicٹریننگ کی اشد ضرورت ہے تاکہ بہترین صلاحیتوںکو اجاگر کر کے موثر فیصلے کیے جا سکیں ۔
جو قومیں وقت کے ساتھ خود کو تبدیل نہیں کرتیں وہ تاریخ کے اوراق سے مٹا دی جاتی ہیں تو حکومتی اداروں کو اشد ضرورت ہے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق تمام قوانین میں ترامیم کریں اور ماڈرن ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے عدالتی نظام کو مزید فعال بنایا جائے۔ وکلاء کی ٹریننگ اس زمرے میں اشد ضروری ہے تاکہ وہ کورٹس معیار فراہم کر سکیں ۔ تھانے اور پولیس کلچر تبدیل کرنے چاہیے۔ prosecution department میں prosecutors کی ٹریننگ فوری اور سستے انصاف کے لیے ناگزیر ہے۔ موثر ترامیم کر کے بر وقت انصاف مہیا کیا جائے تاکہ اس رجحان کو مات ی جائے کہ ایک جنریشن (نسل)مقدمہ دائر کرتی ہے جبکہ دو تین نسلیں اسکو بھگتتی ہیں۔ گواہوں کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کیے جا سکیں تاکہ ہر کوئی قانون کے دروازے پر دستک دے سکے۔ پاکستان میں انصاف کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی مداخلت ہے اس چیز کا سد باب کرنا چاہیے۔ بعض اصلاحات ہو رہی ہیں جیسے ریکاڈرنگ گواہی اور خواتین کے تحفظ کے قوانین وغیرہ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جیل خانہ کے نظام میں بھی اصلاحات کا نفاذ ہونا چاہیے۔ زیر حراست اور زیر ٹرائل قیدیوں کے لانے، پہنچانے کا موثر انتظام ہونا چاہیے۔ بینچ اور بار کا باہمی اتحاد بھی خاطر خواہ اہمیت کا حامل ہے ۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مقنّنہ، عدلیہ اور انتظامیہ ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تعاون کریں اس کے بغیر ہمہ گیر ترقی محض ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔ بقول شاعر
خوشبوئوں کا اک نگر آباد ہونا چاہیے
اس نظام جبر کو برباد ہونا چاہیے
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے