ڈومیسٹک۔وائلنس

436

یہ کیسا بل ہے ؟۔یہ کیوں منظور کیا گیا ؟۔سیدھا سا جواب ہے کہ عوام کو بے وقوف بنا کر ووٹ لے کر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پہنچنے والے ممبرز مغرب کو خوش کرنے کے لیے ’’ترقی‘‘۔ کے نام پر اس بل کو پاس کیا ممبرز کو یہ نظر نہیں آتا کہ جس مغرب کیا یہ تقلید کر رہے ہیں وہاں خاندانی نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے اس بل کے ذریعے یہ لوگ گناہوں کے بیج بو رہے ہیں یہ بل پاس کرتے ہوئے نا اللہ یاد آیا نہ رسول اور نہ ہی قران۔ سینیٹرز کو تو فرصت نہیں کہ قرآن ترجمہ سے پڑھیں تو آپ نے سیکرٹری جن کو وہ بھاری رقوم۔ ادا کرتے ہیں ان سے پڑھنے کا کہہ دیں اور پھر خود سنیں کہ قرآن میں اللہ کا حکم ہے والدین کو ’’اوف‘‘۔ تک نہ کہیں اور والدین کی عزت برباد کریں یہ اولاد یہ کیسا قانون۔
قرآن میں اللہ نے اپنی قدر کروانے کے بعد والدین کی قدر کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بل والدین کی عزت اور قدر کو پامال کر رہا ہے یہ بل اسلام کے منافی ہے یہ ہمارے دین پر حملہ ہے یہ دل تو مادر پدر۔ معاشرہ جنم دے رہا ہے ہمارے مسلم معاشرے میں تو خاندان کی اتنی پیاری شکل ہے کی اولاد ماں باپ کی عزت کرتی ہیں احترام کرتے ہیں اور ماں سے زور کی آواز سے بھی بات نہیں کرتے اور باپ کے احترام میں نظر جھکی ہوئی ہے بڑے چھوٹے پیار اور محبت کے رشتے میں بندھے ہوتے ہیں اسلامی اور دینی شکل کو تار تار کیا جا رہا ہے اولاد کو حق دیا جا رہا ہے تمہارے والدین جنہوں نے آپ نے حلق کا نوالہ۔ تمہیں کھلایا خود بے آرام ہو کر تمہیں آرام پہنچایا ان کو اگر تمہیں تمہاری غلطی پر ڈانٹے یا مارپیڈکریں تو فورا ان کے خلاف اس پل کی رہنمائی حاصل کریں اور اولڈ ہاؤسز۔ اسی لیے تو پروان چڑھ رہے ہیں اس بل کو پاس کرنے سے پہلے اس کے لیے زمین ہموار کی ٹی وی پر ڈرامے میں میاں بیوی کے اٹوٹ رشتے کو بے رحمی سے توڑا گیا والدین جو اولاد کو سدھارنے اور اللہ کی صراط مستقیم پر چلانے کے لیے سرزنش ہی۔ نہیں کر سکتے ورنہ قانونی۔ ایکشن لے لیا جائے گا اسلامی معاشرے میں جب بیٹی رخصت ہوتی ہیں تو والدین کہتے ہیں کہ بیٹی وفادار رہنا شوہر کی عزت اور سسرال والوں کا بہت خیال کرنا اور اب تمہارا جنازہ ہیں وہاں سے نکلے اتنی پیاری نصیحت کرنے والے والدین کو جواب دو بل تو پاس ہو گیا ہے نا شوہر بیوی کا احترام کرے اور نہ بیوی خلوص اور وفا کاپیکر بنے۔ خود شناسی۔ اور بااختیار جو یہ بل بنا رہا ہے۔ بہن بھائی جو ایک دوسرے کا سہارا ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے اخوت پر پیار کا جذبہ رکھتے ہیں وہ ان جذبوں سے ہٹ کر بل۔ کے سائے تلے۔ آ جائیں۔۔۔اے صاحب اقتدار قومی اسمبلی۔ اور سینٹ کے ممبران کس خوفناک کھائی میں آپ خاندانی۔ نظام کو ڈبو رہے ہیں اس کے نتائج بدتری، بے حیائی، خود مختاری، بے عزتی اور کتنی ہی۔ برائیوں کی شکل میں نکلیں گے مگر ایک آواز مشتاق احمد صاحب کی اس بل کے خلاف اٹھی
تھی اس گندے بہتے پانی میں ایک موتی ایسا بھی تھا جو حق کا علم بردار ہے جو تمام عوام کی سوچ اور زبان کو۔ ان ایوانوں میں اٹھایا اس نے اس خوفناک بل کے خلاف سچ اور حق کی بات کی تو نہ اس کی بات سنی نہ کوئی داد رسی کی اس نے حق ادا کر دیا سچ کا۔ اس بل کو پاس کرنے والے اور پیش کرنے والے اللہ کے بندو تمہیں تو عوام کی زندگی کی حفاظت۔ اور اسلامی قوانین کا ذمہ دار بنایا تھا اور تم نے اسلام کے منافی بل کو پاس کر کے خاندانی نظام کو ہی نشانہ بنا لیا ہم عوام ہمیشہ اس بل کو مسترد کریں گے اس اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے اہل اقتدار سے عوام سوال کرتے ہیں کہ یہ خاندانی نظام کی تباہی اور بربادی اور اللہ کے احکامات کی پامالی اور آخرت سے بے رخی آخر آپ کس راہ پر چل پڑے ایک ایسے اندھیری راہ پر جس پر کانٹے ہی کانٹے ہیں مگر ایک حق کی آواز ہے جو مسلمانوں کے دل کی آواز ہے اور جو آسمانوں پر بادشاہ بیٹھا ہے وہ انصاف کرے گا اور آپ کو اس کا جواب دینا ہو گا ؟