لاٹھی اور بھینس

252

کہتے ہیں جس کی لاٹھی ہو بھینس بھی اسی کی ہوتی ہے یہ ایک ایسا رویہ ہے جس نے ہمارے سماجی ،اخلاقی ،اورسیاسی نظام کو نظام سقہ بنا دیا ہے جو ایک دن کی بادشاہت کو بھی اپنے اور اپنی برادری کے مفاد کے لیے استعمال کرتا ہے مفادات کا حصول ذاتی مسئلہ بن جائے توقوم تباہ ہو جاتی ہے اور ملک بے توقیر، جسکی بھینس ہو لاٹھی بھی اسی کی ہو تو معاملہ درست انداز میں چلتے ہیں مگر جب لاٹھی کسی اور کی ہو تو بھینس کا دودھ خشک ہو جاتا ہے اور دیگر معاملات خشک سالی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان کا المیہ بھی یہی ہے کہ اقتدار کسی کا ہوتا ہے اورحکم کسی اور کا چلتا ہے نتیجتاً معاشی اور اقتصادی حالات خشک سالی کی نذر ہو جاتے ہیں آزاد کشمیر بظاہر تو آزاد ہے مگر کہنے کی حد تک کیونکہ یہاں حکم کسی اور کا چلتا ہے اگر آزاد کشمیر کا وزیر اعظم پاکستان کے وزیر اعظم کا حکم نہ مانے تو غدار قرار دے دیا جاتا ہے کہتے ہیں کہ غدار قرار دیتے نے کا معاملہ الیکشن میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا تھا ۔
آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کا یہ سوال ہر محب وطن کے لیے قابل توجہ ہے کہ کیونکہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے یہ سوال کیا ہے کہ کیاوہ غلام ہیں؟ آزاد کشمیر کے حالیہ الیکشن سے قبل وزیر اعظم عمران خان کے وزیروں اور مشیروں کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے اسے نظر انداز کرنے کا چلن اس سے بھی زیادہ افسوسناک ہے آزاد جموں و کشمیر کے الیکشن کمیشن نے گنڈا پور کی جانب سے عوام کو جو ترغیب دی جارہی ہے اسکے خلاف قانونی کارروائی کا حکم جاری کیا ہے ، مگرا اس پر عمل درآمد نہیں کیا جارہاہے،اس پس منظر میں آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ کیا پاکستان کے بااثر اور بااختیار لوگوں کے لیے آزاد کشمیر کے قانون اور قواعد و ضوابط کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا انہوں نے پاکستان کے صاحب اختیار اور مقتدر شخصیات کو متنبہ کیا ہے کہ اگر پاکستان کے وزیروںاور مشیروں نے اپنی روش نہ بدلی تو وہ اپنا معاملہ پاکستان کے عوام کے سامنے رکھیں گے۔ حکومت کی جانب سے تو کسی طرح کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی ہے شاید وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ ان کے وزیر اور مشیر آزاد کشمیر میں دھاندلی کررہے ہیں، البتہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے اس امکان کا اظہار کیا ہے کہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم الیکشن کے بعد اسلام آباد میں دھرنا دے سکتے ہیں، اب یہ ایک الگ موضوع ہے کہ ان کے دھرنے میں کون دھرا جاتا ہے اور کون دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔
آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے گزشتہ دنوں نعرہِ حیدری بلند کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان جو چاہے کر لیں مگر ازاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ نہیں بنا سکتے ،کیونکہ ہم آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکنا کبھی پسند نہیں کریںگے۔وزیر اعظم عمران خان نے انتخابی مہم کے لیے کشمیر کا دورہ کیا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ موصوف نے وہی رٹا رٹایا سبق دہرایا ہے کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنائیں گے خدا جانے ریاست مدینہ سے ان کی کیا مرادہے وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایسی تبدیلی لائیں گے کہ پاکستان کا سارا نظام تبدیل ہو جائے اور پاکستان کا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک ہونے لگے گا، یہ اوراس طرح کے دیگر وعدے وعید جو عوام کے دل کی آواز تھے ان کی خواہشات اور امنگوں کے ترجمان تھے اس لیے عوام نے ان کی آواز پر لبیک کہا مگر لبیک کہنے والوں میں ایسے افرادکی اکثریت تھی جو عمران خان کو آزمانا چاہتے تھے پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ نے عوام کو نوازنے کے بجائے خود پر نوازشوں کی بارش کی جس نے عوام کو ان کی کارکردگی سے مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیااب یہ عوام کی بد نصیبی ہے کہ عمران خان نے مذکورہ جماعتوں سے بھی زیادہ مایوس کیا،یہ کیسا المیہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ملک وقوم کا پرچم بلند کرنے کے بجائے مخالفین پر الزامات کی سنگباری کو اپنا وتیرا بنا لیا ہے، آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے پاکستان کی حکومت پرجو الزامات لگائے ہیں ،پاکستان نے وہی الزامات مودی سرکار پر لگائے ہیں، پاکستان کا کہنا ہے کہ مودی سرکار مقبوضہ کشمیر کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کر کے کشمیریوں کو اقلیت میں شامل کرنا چاہتی ہے، نیازی حکومت نے ساری دنیا کو مودی سرکار کے ظلم و ستم کے آواز اٹھانے کے لیے بڑے جتن کئے ہیں مگر اقوام عالم ان کی بات پر توجہ دینے پر آمادہ ہی نہیں سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہورہاہے ،یہ کوئی ایسا مشکل سوال نہیں جسے حل کرنے کے لیے ریاضی کے ماہرین کی کمیٹی بنائی جائے کیونکہ کشمیربنے گا پاکستان کے نعرے نے دنیا کو بیزار کر دیا ہے آزاد کشمیر میں بھی وہی کچھ ہو رہاہے جو مقبوضہ کشمیر میں ہو رہاہے، اس لیے دنیا ہماری بات پر غور کرنا نہیں چاہتی مگر اس پالیسی اور نعرے نے کشمیریوں کو مودیت اور نیازیت کے درمیان سینڈوچ بنا دیاہے۔