پاکستان سپر لیگ کا چھٹا ایڈیشن ، ایک جائزہ

391

ملتان سلطانز اپنے بہترین ٹیم ورک ، پلاننگ اور کپتان رضوان احمد اور صہیب مقصود کی بیٹنگ اور نپی تلی بولنگ شاہنواز دھانی ، عمران طاہراور سہیل تنویر کی بولنگ کے نتیجے میں کامیاب ہو گئی ۔ شاہنواز دھانی ٹورنامنٹ کے لیڈنگ وکٹ ٹیکر رہے اور صہیب مقصود فائنل کے مین آف دی میچ ٹورنامنٹ کے بہترین بلے باز اور پلئیر آف دی ٹورنامنٹ قرار پائے۔ یوں تو ساری ٹیمیں پیپر پر بہت اچھی تھیں مگر ان میں نمایاں لاہور قلندرز اپنی بولنگ اور بیٹنگ کی وجہ سے سب سے زیادہ فیورٹ دکھائی دے رہی تھی بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی ، راشد خان اور حارث رئوف ٹی 20 کے بہترین بولرز میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ بیٹنگ میں محمد حفیظ ، فخر زمان، بین ڈنک کی خدمات حاصل تھی مگر انکی بدقسمتی ہمیشہ کی طرح انکے ساتھ رہی جو ٹیم پہلے فیز میں جو پاکستان میں کھیلاگیا ۔ بہترین کھیل کا مظاہرہ کرتی رہی وہی ٹیم جب اپنے دوسرے فیز میں جو ابوظہبی میں کھیلا گیا انکی جیت کا گراف نیچے آگیا اور 5ویں مرتبہ لاہور قلندرز آخری 4 ٹیموں میں اپنی جگہ نہیں بناسکی ۔ شاید لاہور قلندرز کی انتظامیہ کا سہیل اختر کو کپتان بنانا انکے حق میں بہتر ثابت نہیں رہا۔ ویسے بھی جب ٹیم میں محمد حفیظ جیسے تجربہ کار اور مستند کھلاڑی کے ہوتے ہوئے کپتانی کسی اور کو دینا اسکی مصلحت لاہور قلندرز کی انتظامیہ ہی سمجھ سکتی ہے ۔ کوئٹہ گلیڈیٹرز کی ٹیم اسی سال پہلی مرتبہ ایک کمزور ٹیم دکھائی دی جو اپنے ہر میچ میں جدوجہد کرتی نظر آئی اس ٹیم میں بیٹنگ میں کوئی نمایاں بڑا نام اس سال موجود نہیں تھا جس ٹیم میں پہلے کبھی کیون پیٹرسن ، شین واٹسن، عمر اکمل ، احمد شہزاد جیسے بیٹسمین موجود تھے وہیں ٹیم کی بیٹنگ سرفراز احمد کی گرد گھومتی نظر آئی جس کا نتیجہ یہ رہا کہ یہ ٹیم اپنے 10 میں سے صرف 2 میچ جیت کر سب سے آخری نمبر پر رہی ۔ گزشتہ سال اس ٹیم میں پاکستان کے اوپنر خرم منظور بھی شامل تھے ۔ جنکو صرف ایک آخری میچ کھلایا گیا تھا جہاں انہوں نے 70 رنز کی شاندار اننگز کھیلی تھی حیرت انگیز طورسے اس سال انکو ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا ۔ یقینا انکی غیر موجودگی کوئٹہ کو اس کمزور بیٹنگ لائن میں بہت محسوس ہوئی ہوگی ۔ کراچی کنگز اس پی ایس ایل کی سب سے مہنگی ٹیم ہے مگر اس ٹیم کی کارکردگی بھی ہمیشہ سوالیہ نشان رہی ہے اسکی وجہ یہی ہے کہ 6 میں صرف ایک مرتبہ یہ ٹیم چیمپئین بن سکی ۔ پیپر پر یہ ٹیم بظاہر اپنے بڑے ناموں کی وجہ سے مضبوط دکھائی دیتی ہے ۔ مگر انکی کارکردگی میں تسلسل نہیں رہا ۔ بابر اعظم اور محمد عامر پاکستان کے بہترین بیٹسمین اور بولر سمجھے جاتے ہیں۔ محمد عامر اس سال اپنی لائن اور لینتھ سے جدوجہد کرتے نظر آئے اور اپنے پہلے اسپیل میں وکٹ لینے میں ناکام رہے ۔ اس دفعہ یہ off color نظر آئے ۔ بابر اعظم نے ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز بنائے مگر یہ رنز بھ انکی ٹیم کو جیت اور ملیں رنز شکست کا سبب بنتے رہے خاص طور پر شروع کے میچوں میں اسلام آباد کے خلاف جس میں شرجیل خان نے بہترین سینچری اسکو کی تھی وہ میچ کراچی اسلام آباد سے ہار گیا بابر اعظم نے اس میں اپنے 54 رنز توبنائے تھے مگر اسکے لئے انہوں نے 47 گیندیں بھی کھیلی تھی اس طر ح ایلیمینٹر کے میچ میں پشاور زلمی کے خلاف بابر اعظم نے پھر سے اپنی نصف سنچری تو مکمل کرلی مگر اسکے لئے بھی وہ 46 گیندیں کھیلی ہیں اور کراچی یہ میچ پشاور سے ہا رکر ٹورنامنٹ سے باہر ہوگیا ۔ محمد عامر جو کبھی پاکستان اور کراچی کنگز کیلئے میچ ونر سمجھے جاتے تھے وہ محمد عامر اس سال دکھائی نہیں دیئے جو کبھی ہوا کرتے تھے جنکی دہشت بیٹسمینوں پر تھی کبھی اب اسی محمد عامر کو بیٹسمین اپنے مرضی سے کھیلتے ہیں۔اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم ایک متوازن ٹیم تھی اوپننگ میں انکو کولن منرو اور عثمان خواجہ جیسے بیٹسمین کی خدمات حاصل تھی ، مڈل آرڈر بھی انکا افتخار احمد ، آصف علی ، حسین طلعت کی وجہ سے مضبوط تھا ۔ شاداب خان بطور کپتان بہت ناتجربہ کار دکھائی دیے ان سے کپتانی میں بہت سی غلطیاں ہوئیں ایک میچ میں آخری اوور میں اگلی ٹیم کو 15 رنز چاہئے تھے ،اپنا ایک اوور رکھتے ہوئے بھی شاداب خان نے حسین طلعت سے وہ آخری اوور کروایا اور حسین طلعت کی 4 گیندوں میں ہی اگلی ٹیم نے 15 رنز آسانی سے کرلئے یاد رہے کہ اس میچ میں حسین طلعت نے یہ پہلا اوور کرایا تھا ۔ بیٹنگ آرڈر میں مستقل تبدیلی اور شاداب خان کا افتخار احمد اور آصف علی کی موجودگی میں ان سے اوپر کے نمبروں پر بیٹنگ کرنا سمجھ سے باہر رہا وہ نمبر 3 سے نمبر 10 تک پورے ٹورنامنٹ میں بیٹنگ کرتے رہے اور ان سے کسی بھی اننگ میں رن نہیں ہوئے حیرت اسلام آباد کی انتظامیہ پر کہ وہ شاداب کو یہ نہیں سمجھا سکے کہ وہ اوپر کے نمبر کے بیٹسمین نہیں ہیں شاداب خان کا اوپر کے نمبروں پر بیٹنگ کرنے کا ایڈونچر اسلام آباد کے حق میں برا ثابت ہوا نہ صرف بلکہ یہ شاداب خان کے حق میں بھی برا ہوا انکی بیٹنگ کی ناکامی کا اثر انکی بولنگ پر بھی پڑا انکی بولنگ میں وہ خود اعتمادی نہیں دکھائی دی جو کبھی ہوا کرتی تھی اور بیٹسمین نے اپنی مرضی سے ان کے خلاف بیٹنگ کی ۔ فائنل میں PSL کی (2) بہترین ٹیمیں آپس میں ٹکرائیں فائنل سے پہلے کام تاثر یہی تھا کہ پشاور زلمی فائنل کے لئے فیوریٹ ہے وہاب ریاض جیسے تجربہ کار کھلاڑی اور کپتان اور ڈیرن سیمی کی کوچنگ میں ڈیرن سیمی کا تعلق ویسٹ انڈیز سے ہے جو ہمیشہ اپنے فاسٹ بولرز پر انحصار کرتی رہی وہاب ریاض خود بھی فاسٹ بولر ہیں وہ ابوظہبی کی وکٹ پر بھی جو اسپنرز کے لئے زیادہ موزوں تھی ۔ وہاں بھی فائنل میں بنا کسی اسپنر کے اپنے فاسٹ بولرز کے ساتھ میدان میں اتری اگر ایک فاسٹ بولر کو کم کرکے ایک اسپنر کو شامل کرتے تو یہ میچ بہت زیادہ دلچسپ ہوجاتا ۔ پشاور زلمی نے ٹاس جیت کر ملتان سلطانز کو بیٹنگ کرنے کی دعوت دی ۔ شان مسعود اور محمد رضوان نے ایک بہتر اسٹارٹ دیا اور جب شان مسعود 37 رنز بناکر اور محمد رضوان 30 رنز بناکر آئوٹ ہوئے تو مین آف دی میچ صہیب مقصود اور بیلی روسوو نے اپنے دلکش بلے بازی سے ٹی وی اسکرین پر میچ دیکھنے والے مداحوں کے دل جیت لئے وہ پشاور زلمی کے فاسٹ بولرز کو اپنی مرضی سے اسٹروکس کھیلتے رہے اور میچ کو ملتان سلطانز کی جیت کیلئے بہترین راہ ہموار کردی بیلی روسوو نے 21 بال پر 50 اور صہیب مقصود نے 35 بال پر 65 رنز کی شاندار نا قابل شکست اننگ کھیلی آخری پانچ گیندوں پر خوشدل شاہ نے دو چھکوں کی مدد سے 15 رنز ناٹ آئوٹ بناکر اسکور کو 204 پر پہنچادیا ۔ پشاور زلمی کے فاسٹ بولرز صہیب مقصود اور روسوو کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے رہے ۔ یہ وہی صہیب مقصو دہیں جنکے بارے میں ایلیمینٹر کے میچ میں اسلام آباد کے خلاف رمیز راجہ نے کمنٹری کے دوران کہا تھا اگر آپ کہیں باہر ہیں ۔ کوئی دوسرے کام کررہے کہیں مصروف ہیں تو اپنے سارے کام چھوڑیں ٹی وی کا سوئچ آن کریں اور صہیب مقصود کو کھیلتے دیکھیں۔ جنکو بعدازاں مین آف دی میچ ، بہترین بیٹسمین آف دی ٹورنا منٹ اور پلیئر آف دی ٹورنامنٹ کے اعزاز دیئے گئے ۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی کسی بھی سطح پر نہیں رہی مگر ہمارا المیہ یہ کہ ہم ٹیلنٹ سے زیادہ اپنی ذاتی پسند نا پسند کو ترجیح دیتے ہیں ورنہ صہیب مقصود اور فواد عالم اتنے سال نا بھینٹ نہ چڑھتے ۔ بہت سے نام پاکستان کی کرکٹ تاریخ میں ایسے ہیں جو ذاتی پسند ناپسند کی بھینٹ چڑھ کر گمنامی کے اندھیروںمیں گم ہوگئے ۔