اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟

454

ابھی موجودہ حکومت کو دو سال پڑے ہیں، وہ پی ڈی ایم کے احتجاجی جلسوں سے قبل ازوقت جاتی نظر نہیں آتی، لیکن ابھی سے اگلے وزیراعظم کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں۔ میاں شہبازشریف کا دعویٰ ہے کہ موجودہ وزیراعظم عمران خان تو کسی شمار قطار میں نہ تھے اور 2018ء کے انتخابات کے بعد انہیں (شہباز شریف کو) وزیراعظم بنانے کا فیصلہ فائنل ہوچکا تھا، کابینہ کے ارکان کی فہرست بھی طے ہوگئی تھی، انہوں نے اپنی شیروانی استری کروانے کے لیے دکان پر بھیجی تھی کہ اچانک بساط الٹ گئی اور عمران خان منظرعام پر آگئے، اور وزارتِ عظمیٰ کا ہُما اُن کے سر پہ بیٹھ گیا۔ اب اس غلطی کی تلافی ہونی چاہیے اور انہیں ان کا حق ملنا چاہیے۔ آصف زرداری کہتے ہیں کہ اب بلاول کی باری ہے اور اسے وزیراعظم بننا چاہیے، بلکہ وہ تو دعوے سے کہتے ہیں کہ اگلا وزیراعظم بلاول ہوگا۔ چناں چہ انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کی کنفرمیشن حاصل کرنے کے لیے اسے امریکا بھیجا ہے، جہاں وہ امریکی حکام کو اپنی وفاداری کا یقین دلائے گا اور ان کی حمایت حاصل کرے گا۔ معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عسکری اور سول قیادت کی تقرری امریکا کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتی۔ امریکا فوج میں بریگیڈیئر سے لے کر آرمی چیف تک کی تقرری میں اپنا پورا اثررسوخ استعمال کرتا ہے، جبکہ سول حکومت بھی اپنی مرضی کی لاتا ہے، اس کے لیے انتخابات کو ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ہمارے ہاں انتخابات کیسے ہوتے ہیں اور انتخابی نتائج کہاں تیار کیے جاتے ہیں۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ بلاول اسی امید پر امریکا گیا ہے کہ اُسے امریکی حمایت حاصل ہوگئی تو انتخابات کے ذریعے برسراقتدار آنے میں اُس کے لیے کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔ بلاول ہی پر کیا موقوف ہے، یہاں تو جبہ و دستار کی حامل بھاری بھرکم سیاسی شخصیات بھی امریکا کی خوشامد کرتی نظر آتی ہیں۔ ’’وکی لیکس‘‘ کے مطابق حضرت مولانا فضل الرحمن محض اس لیے وزیراعظم نہیں بن سکے کہ امریکا نے اُن کی حمایت کرنے سے انکار کردیا تھا، حالاں کہ انہوں نے امریکا کو اپروچ کرکے اسے اپنی وفاداری کا بھی یقین دلایا تھا، لیکن وہ ایک ’’مولوی‘‘ پر اعتماد کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔
قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کمند کہاں!
دوچار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا!
واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ حضرت مولانا وزارتِ عظمیٰ کے نہایت مضبوط امیدوار تھے۔ قومی اسمبلی میں ان کے ووٹ بھی پکے تھے، لیکن امریکا کے انکار نے ان کی حسرت پوری نہ ہونے دی۔ خود حضرت مولانا نے اس معاملے کی تصدیق کی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ بلاول کے دورۂ امریکا پر معترض ہیں۔ انہوں نے گلہ کیا ہے کہ بلاول نے امریکا جانے کی اطلاع نہیں دی ورنہ وہ اسے مشورہ دیتے کہ امریکا نہ جائو۔ سچی بات ہے، امریکا کسی کا دوست نہیں ہے، وہ صرف اپنے مفادات کا دوست ہے۔ وہ افغانستان میں اپنی کٹھ پتلی ’’منتخب حکومت‘‘ کو جس طرح بے یارومددگار چھوڑ کر بھاگا ہے اس سے پوری طرح واضح ہوگیا ہے کہ اس کی دوستی اور حمایت پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کسی کتاب میں یہ اعترافی جملہ لکھا ہے کہ امریکا کی دوستی اس کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے۔ پاکستان اس دوستی سے بار بار ڈسا جاتا رہا ہے لیکن پھر بھی وہ اُس کی دوستی سے باز نہیں آتا۔ شاید اسی لیے کہا گیا ہے کہ دوستی کو نفع نقصان کی میزان پر نہیں پرکھا جاتا۔ بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو بھی امریکا کی دوستی کے ڈسے ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی بھٹو کی پھانسی کے بعد مدتوں امریکا سے الرجک رہی، لیکن پھر اس نے امریکا سے دوستی گانٹھ لی۔ زرداری نے اپنے دورِ حکومت میں حسین حقانی کو امریکا میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا تھا، لیکن یہ صاحب اپنی حرکتوں سے امریکا کے سفیر معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے امریکی جاسوس اور دو پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں اہم کردار ادا کیا اور امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی میں ایسی رکاوٹیں ڈالیں کہ وہ آج تک رہا نہ ہوپائیں۔ بہرکیف اب بلاول امریکا سے دوستی گانٹھنے اور اُسے اپنی وفاداری کا یقین دلانے گئے ہیں۔ دیکھیے وہ بامراد واپس لوٹتے ہیں یا نامراد واپس آتے ہیں۔
لیجیے صاحب! بات چلی تھی کہ پاکستان میں اگلا وزیراعظم کون ہوگا کہ رُخ امریکا کی طرف پھر گیا۔
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
امریکا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ پاکستانی سیاست پر بات کی جائے تو امریکا کے ذکر کے بغیر بات نہیں بنتی۔ آئیے پھر اس موضوع کو چھیڑتے ہیں کہ اگلا وزیراعظم کون ہوگا۔ شہبازشریف اور بلاول کا ذکر ہوچکا، اب عمران خان کی بات کرتے ہیں کہ وہ بھی اس بات پر مُصر ہیں کہ اگلی باری پھر ان کی ہونی چاہیے کہ پہلی باری میں وہ کچھ ڈیلیور نہیں کرسکے، البتہ دوسری باری میں وہ بہت کچھ ڈیلیور کرسکتے ہیں۔ وہ پاکستانی سیاست کے بارے میں جو کچھ سوچتے ہیں، چھپاتے نہیں، سب پر واضح کردیتے ہیں۔
یہ میڈیا کا دور ہے، منہ سے نکلی، کوٹھوں چڑھی۔ وہ جو بات کہتے ہیں وہ پاکستان ہی میں نہیں، آن کی آن میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ عمران خان ایک طرف ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کے دعویدار ہیں، وہ پاکستان میں ریاستِ مدینہ جیسا عادلانہ نظام قائم کرنا چاہتے ہیں، دوسری طرف وہ چین کے یک جماعتی آمرانہ نظام کو بھی پسند کرتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ
سوہنی ہو جاون گلیاں، وچ مرزا یار پھرے
پاکستان میں بھی یک جماعتی نظام کے تحت عمران خان مختارِ کُل بننا چاہتے ہیں تاکہ وہ کرپٹ سیاست دانوں کو جو اُن کے سیاسی حریف بھی ہیں، کسی جھنجھنٹ میں پڑے بغیر ٹکٹکی پر لٹکا سکیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا امریکا عمران خان کی حمایت کرسکتا ہے؟ ہمارے ایک دوست کا دعویٰ ہے کہ امریکا پاکستان میں جمہوریت نہیں، آمریت چاہتا ہے۔ اس اعتبار سے عمران خان اُس کا بہترین انتخاب ہوسکتے ہیں۔ اس وقت عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں، اگر جنرل باجوہ اپنی ملازمت میں دوسری بار توسیع لینے پر آمادہ ہوئے تو یہ مفاہمت مزید آگے بڑھے گی اور کپتان کے لیے اپوزیشن کو ہرانا آسان ہوجائے گا۔ امریکا بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے فیصلے سے اتفاق کرے گا۔ بہرکیف ابھی الیکشن میں دو سال پڑے ہیں، اور اس دوران بار بار یہ سوال اُٹھتا رہے گا کہ
اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟
اور ہر امیدوار اپنی سی کوشش کرتا نظر آئے گا۔