ذرا اپنے آپ سے پوچھیے؟

506

 

ہم دو مرتبہ افغان جنگ میں کیوں کودے؟
ہم بار بار ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری کو اقتدار میں کیوں لاتے رہے؟
ہم امریکا اور برطانیہ کو اپنے داخلی معاملات اور سیاسی امور میں دخل اندازی کی کیوں دعوت دیتے ہیں؟
افغانستان میں روس کے خلاف جنگ میں عرب اور افریقی ممالک سے مجاہدین پاکستان آئے جنہوں نے افغان جہاد میں حصہ لیا، پاکستان کو امریکا نے اس جنگ کے لیے اربوں امریکی ڈالرز دیے۔ روس سرزمین افغانستان سے نکل گیا اور پھر بعد میں سوویت یونین بھی بکھر گیا، ہم نے سرزمین پاکستان پر 50 لاکھ سے بھی زائد افغان مہاجرین کو پناہ دی، دیگر مسلم عرب ممالک کے ہزاروں کی تعداد میں ان کے شہری بھی پاکستان ہی میں آباد ہوگئے۔ اب 9/11 ہوتا ہے تو ہم پھر ایک بار افغان جنگ میں شریک ہوجاتے ہیں، ماضی کے مجاہدین اب دہشت گرد بن جاتے ہیں، جنرل پرویز مشرف امریکا کی تمام شرائط مان کر سرزمین پاکستان پر امریکی فوجی اڈے بنانے کی اجازت دے دیتے ہیں، ہماری سرزمین پر امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی کے علاوہ بلیک واٹرز کے خفیہ ایجنٹ کھلے عام کارروائیاں کرتے ہیں، ڈرون حملے بھی سرزمین پاکستان پر ہوتے رہے، ہمارے حکمران عوامی سطح پر اس کی مذمت کرتے رہے، اس طرح ہمارے حکمران امریکی غلامی کو اعزاز تصور کرتے رہے اور پھر ساتھ ہی اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کی غرض سے امریکا جا کر مدد طلب کرتے رہے۔ میاں نواز شریف سے لے کر آصف علی زرداری تک اور پھر جنرل پرویز مشرف خود امریکی اور برطانوی حکام کے علاوہ سعودی اور متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندانوں سے بھی اپنے اقتدار کے لیے ان کا تعاون مانگتے رہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کی دبئی میں یو اے ای کے شاہی خاندان کی مشاورت سے اقتدار کے لیے ڈیل طے ہوئی اور پھر میاں نواز شریف کو بھی اس ڈیل کا حصہ بنا کر پاکستان آنے کی اجازت دی گئی۔ پاکستان میں اقتدار کے لیے خفیہ ڈیل کے حوالے سے امریکا کی سابق سیکرٹری خارجہ کونڈو لیزا رائس اور امریکی صدر بل کلنٹن کے علاوہ صدر جارج بش اپنی یادداشتوں میں تفصیل سے اس کا ذکر کرچکے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ماضی میں پاکستان میں اقتدار کے لیے غیر ملکی قوتیں سرگرم رہی ہیں اور بدعنوان حکمرانوں کو اپنے مفادات کے لیے ان کے اقتدار کی راہیں ہموار کرتی رہی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے امریکا کو سفید ہاتھی کا نام دے کر کہا کہ وہ میرے خون کا پیاسا ہے لیکن یہاں یہ کہا گیا کہ یہ ان کی سیاسی چال ہے مگر حقیقت یہ تھی کہ واقعی امریکا نے ذوالفقار علی بھٹو کو مسلم امہ کی قیادت کرنے کے جرم میں ہمیشہ کے لیے منظرنامے ہی سے ہٹادیا۔ مگر بعد میں جو کچھ ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے کہ جنرل ضیا الحق مرحوم سے جو کام لینا تھا وہ لیا گیا اور پھر ان کو بھی منظرنامے سے ہٹادیا گیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل کو بھی امریکی سی آئی اے نے قتل کروایا جس کا اعتراف خود امریکی صحافی ANTON CHAIT KIN اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کرچکے ہیں۔
پاکستان نے افغان جنگ میں امریکا کا اتحادی بن کر اپنے 70 ہزار شہریوں کی قربانی دی جن میں فوجی جوان اور افسر بھی شامل ہیں، ان قربانیوں کا کیا صلہ ملا پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ اور ہمارے قبائلی علاقے میدان جنگ بن گئے مگر افسوس یہ کہ ہمارے حکمرانوں نے امریکی احکامات کو عملی جامہ پہنائے رکھا اور اپنے ہی شہریوں کو پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا، اس پورے کھیل میں رحمن ملک اور حسین حقانی نے جو کھیل کھیلا وہ سب کے سامنے ہے، آصف علی زرداری اپنے تینوں بچوں کے ہمراہ امریکا سرکاری دورے پر گئے۔ وائٹ ہائوس میں صدر بارک حسین اوباما سے خصوصی ملاقات کی اور بلاول زرداری کو پاکستان میں مستقبل کے وزیراعظم کے طور پر متعارف کروایا، یہی صورت حال میاں نواز شریف کی تھی وہ اپنی صاحبزادی مریم نواز کو مستقبل کی وزیراعظم کے طور پر صدر اوباما کی اہلیہ سے ملواتے ہیں، یہ اصل حقیقت ہے، ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری یعنی ان کی آئندہ کی نسلیں پاکستان کے مقدر کے فیصلے کریں گے اور ان کو اقتدار میں لایا جائے گا۔ اب اس حقیقت سے کون نہیں واقف کہ گزشتہ تیس چالیس سال کے دوران جن خاندانوں نے یہاں حکمرانی کی ہے انہوں نے دونوں ہاتھوں سے قومی خزانہ لوٹا ہے اور قومی اداروں میں اپنے منظور نظر بیورو کریٹس کو میرٹ سے ہٹ کر تعینات کروایا اور اپنی کرپشن کے تمام ثبوت غائب کروائے اور پھر ان بیوروکریٹس کو بھی اس لوٹ مار میں برابر کا حصے دار بنوایا۔ آج قومی ادارے کس حالت میں ہیں ان کی کارکردگی کیا ہے؟ اور یہ موجودہ حکومت کے کس قدر احکامات مانتے ہیں اعلیٰ عدالتوں میں کرپشن کے مقدمات کی سماعت کس رفتار سے جاری ہے، بدعنوان شخصیات کو کس نوعیت کا اور کتنا ریلیف مل رہا ہے یہ سب کچھ پورے معاشرے میں ایک نیا رجحان پیدا کررہا ہے۔ عدالت میں انصاف کے حوالے سے عام لوگوں کا اعتماد اٹھ رہا ہے۔ اب اخلاقیات کا بھی کوئی معیار نہیں رہ گیا سیاست میں صرف اور صرف حصول اقتدار اور کرپشن کے مقدمات سے جان چھڑانے کی جنگ جاری ہے تا کہ دوبارہ اقتدار میں آکر لوٹ مار کریں۔ آصف علی زرداری کا یہ کہنا کہ ’’حکومت چل ہی نہیں رہی تو حکومت ہے کہاں‘‘ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کیوں کہ یہ پورا قومی خزانہ لوٹ کر لے گئے۔ برطانیہ، فرانس اور امریکا کے علاوہ دبئی میں ان کے اثاثے اور جائدادیں موجود ہیں ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات موجود ہیں یہ برابر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بلاول ہائوس کراچی میں بھی اور لاہور میں بھی، مستقبل میں سیاسی جوڑ توڑ کے لیے زرداری صاحب مصروف ہیں، اندازہ کرلیں شرجیل میمن، رائو انوار یہ سب آزاد ہیں، فریال تالپور کو کروڑوں روپے کا ماہانہ بھتا دینے والے عذیر بلوچ بھی رفتہ رفتہ مقدمات سے باعزت طور پر بری ہوتے چلے جارہے ہیں، ان پر نہ حکومت وقت کی کوئی گرفت، نہ اس دھرتی کا قانون ان کا کچھ بگاڑ سکا اور نہ ہی عدالتیں کوئی سخت سزائیں ان کے لیے تجویز کرتی ہیں۔ یعنی اب حالت یہ ہے کہ سرزمین پاکستان پر PAKISTANI DOMINANCE GROUP۔ پی ڈی جی اپنے قدم جما چکا ہے اور یہ مافیا کی شکل میں پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ماضی کے 22 خاندانوں سے بڑھ کر اب کئی سو خاندان قومی دولت پر قابض ہیں اور پاکستانی سیاست میں موروثی سیاست کو فروغ دینے میں ان کا کردار ہے جو پورے نظام کو اپاہج کرچکا ہے۔ قومی تقاضا ہے کہ جس جس نے بھی قومی خزانہ لوٹا ہے ان کو ’’قومی مجرم‘‘ قرار دے کر ان کے اثاثے اور جائدادیں ضبط کرلی جائیں اور پھر ذرا غور کریں کہ سوئٹزرلینڈ اور فرانس سے تعلق رکھنے والے پولیٹیکل رائٹر BENJAMIN CONSTANT نے کیا کہا تھا: ’’NOTHING ON EARTH CAN EVER JUSTIFY A CRIME IF YOU AN AMNESTY TO THE PAST, YOU ARE CORRUPTING THE FUTURE‘‘
ذرا اپنے آپ سے پوچھیے، مضبوط اور مستحکم پاکستان کے لیے صاف ستھرے اور کرپشن سے پاک مضبوط نظام کی ضرورت ہے‘‘۔